Home ≫ ur ≫ Surah Al Hadid ≫ ayat 22 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(22)
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ: زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قضاء اور تقدیر کا بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو!زمین میں قحط کی، بارش رک جانے کی، پیداوار نہ ہونے کی ،پھلوں کی کمی کی اور کھیتیوں کے تباہ ہونے کی ،اسی طرح تمہاری جانوں میں بیماریوں کی اور اولاد کے غموں کی جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے (یعنی زمین کو یا جانوں کو یا مصیبت کو)پیدا کرنے سے پہلے ہی ہماری ایک کتاب لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اور انہیں لوحِ محفوظ میں لکھ دینا ہمارے لئے آسان ہے۔( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۲۱۱، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۲۳۱، ملتقطاً)
یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی ہر مصیبت ا س کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور ہرمصیبت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(تغابن:۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔
البتہ بعض مصیبتیں بعض وجوہات کی بنا پر بھی آتی ہیں اور یہ وجوہات بھی لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں ، ان وجوہات میں سے ایک وجہ گناہ کرنا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘(شوریٰ:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو وہ معاف فرمادیتا ہے۔
اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الشوریٰ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۶۳)
اور بسا اوقات مومن کے گناہوں کو معاف کرنے اور ا س کے درجات کی بلندی کے لئے اسے مصیبت پہنچتی ہے، جیساکہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے توا س کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی ایک خطا مٹادیتا ہے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، ص۱۳۹۱، الحدیث: ۴۷(۲۵۷۲))
لہٰذا جس شخص پر کوئی مصیبت آئے تواسے چاہئے کہ وہ اس بات پر یقین رکھے کہ یہ مصیبت ا س کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی اور ا س بات پر غور کرے کہ کہیں اس سے کوئی ایسا گناہ صادر نہ ہو ا ہو جس کے نتیجے میں ا س پر یہ مصیبت آئی ،نیزاللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھے کہ وہ اس مصیبت کے سبب اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے درجات بلند فرما دے۔ ایسا کرنے سے ذہن کو سکون نصیب ہو گا،دل کو تسلی حاصل ہو گی اور مصیبت پر صبر کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔