banner image

Home ur Surah Al Hajj ayat 3 Translation Tafsir

اَلْحَجّ

Al Hajj

HR Background

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ(3)

ترجمہ: کنزالایمان اور کچھ لوگ وہ ہیں کہ اللہ کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں بے جانے بوجھے اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ:اور کچھ لوگ۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیاں  اور اس کی شدت بیان فرمائی اور لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیا اور ا س آیت میں  ان لوگوں  کا ذکر فرما رہا ہے جو قیامت کا انکار کرتے ہیں  ۔ اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں  نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں  کو خدا کی بیٹیاں  اور قرآنِ مجید کو گزشتہ لوگوں کے قصے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکر تھا ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ وہ ہیں  جو  اللہ تعالیٰ کی شان کے بارے میں  علم کے بغیر جھگڑتے ہیں  اور اس کی شان میں  باطل باتیں  کہتے ہیں  اور وہ اپنے جھگڑنے اور عمومی اَحوال میں  ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۲۰۲، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۹۹، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۴، ملتقطاً)

علمِ کلام اچھا علم ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں  علم کے بغیر بحث کرنا حرام ہے ۔ صرف علماءِ دین تحقیق کے لئے اس کی ذات و صفات میں  بحث کر سکتے ہیں  بشرطیکہ جھگڑا مقصود نہ ہو بلکہ صرف اعتراضات کا اٹھانا اور حق کی تحقیق کا قصد ہو، لہٰذا علمِ کلام برا نہیں ، اچھا علم ہے۔

{وَ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ:اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔} اس آیت میں  سر کش شیطان کے بارے میں  دو قول ہیں  ، (1)اس سے انسانی شَیاطین مراد ہیں  اور یہ کافروں  کے وہ سردار ہیں  جو دوسروں  کو کفر کی طرف بلاتے ہیں ۔ (2) اس سے ابلیس اور اس کے لشکر مراد ہیں ۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۹۹)

شیطان انسانوں  اور جنوں  سے نجات کی صورت:

            یاد رہے کہ شیطان خواہ انسانوں  میں  سے ہوں  یاجنوں  میں  سے ان کی کوئی بھی بات نہ مانی جائے کیونکہ اگر ان کی ایک بات مان لی تو یہ ملعون اسی پر اِکتفا نہ کریں  گے بلکہ اور باتیں  منوانے کی تاک میں  بھی رہیں  گے اور جتنا ان کی بات مانتے چلے جائیں  گے اس کاسلسلہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح ان کے ساتھ جھگڑے اور بحث میں  مصروف نہ ہوا جائے کیونکہ ا س کے ذریعے بھی وہ اپنے ناپاک عَزائم میں  کامیاب ہو جاتے ہیں  لہٰذاان سے نجات کی صورت یہ ہے کہ ان کی کوئی بات سنی ہی نہ جائے کیونکہ اگر ان کی بات سنیں  گے تو ممکن ہے کہ کوئی بات دل پر اثر کر جائے اور سننے والا کفر و گمراہی کی دلدل میں  پھنس کر رہ جائے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے کلام کا خلاصہ ہے کہ شیطان دو قسم کے ہیں  (1) شَیَاطِیْنُ الْجِنْ۔ ان سے ابلیس لعین اور اس کی ملعون اولاد مراد ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں  اور تمام مسلمانوں  کو ان کے شر اور تمام شیاطین کے شر سے پناہ دے۔ (2) شَیَاطِیْنُ الْاِنْس۔ اس سے کفار اور بدعتی لوگوں  کے داعی اور مُنادی مراد ہیں ۔  اللہ تعالیٰ ان پر لعنت فرمائے اور ان کوہمیشہ بے سہارا رکھے اوران پر ہمیں  دائمی نصرت عطا فرمائے ۔ اے  اللہ !سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہماری یہ دعا قبول فرما۔

            ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے

’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا‘‘(انعام:۱۱۲)

  یوں  ہی ہم نے ہر نبی کا دشمن کیا شیطان آدمیوں  اور شیطان جنوں  کو کہ آپس میں  ایک دوسرے کے دل میں  بناوٹ کی بات ڈالتے ہیں  دھوکا دینے کیلئے۔

حدیث میں  ہے ،رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو ذر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے فرمایا’’ شیطان آدمیوں  اور شیطان جنوں  کے شر سے  اللہ کی پناہ مانگ۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے عرض کی: کیا آدمیوں  میں  بھی شیطان ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ذر الغفاری رضی  اللہ تعالٰی عنہ، ۸ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۱۶۰۸)

            ائمۂ دین فرمایا کرتے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔( تفسیر طبری، الناس، تحت الآیۃ: ۴، ۱۲ / ۷۵۳)

            میں  کہتا ہوں :اس آیت کریمہ میں  ’’شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ‘‘ کومقدم کرنا بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔اس حدیث کریم نے کہ’’جب شیطان وسوسہ ڈالے اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تو جھوٹا ہے‘‘ دونوں  قسم کے شیطانوں  کا علاج فرما د یا، شیطان آدمی ہو خواہ جن اُس کا قابو اسی وقت چلتا ہے جب اس کی سنیں  گے اور جب تنکا توڑ کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیں  گے کہ’’ تو جھوٹا ہے‘‘ تو وہ خبیث اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۰-۷۸۱)