banner image

Home ur Surah Al Hajj ayat 4 Translation Tafsir

اَلْحَجّ

Al Hajj

HR Background

كُتِبَ عَلَیْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ وَ یَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ(4)

ترجمہ: کنزالایمان جس پر لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس کی دوستی کرے گا تو یہ ضرور اسے گمراہ کردے گا اور اسے عذابِ دوزخ کی راہ بتائے گا۔ ترجمہ: کنزالعرفان جس پر یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس سے دوستی کرے گا تووہ ضرور اسے گمراہ کردے گا اور اسے جہنم کے عذاب کی راہ بتائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُتِبَ عَلَیْهِ:جس پر یہ لکھ دیا گیا ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں  جِنّات اور انسانوں  کے ہرسرکش شیطان کے متعلق لکھ دیاگیاہے کہ جو اس کی اطاعت اور ا س سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا راستہ بتائے گا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں  اس شخص کے بارے میں  لکھ دیا گیا ہے جو شیطان کی پیروی اور ا س سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے جنت سے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کی راہ بتائے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۴-۵، تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۲۰۲، ملتقطاً)

بدمذہبوں  سے دوستی اور تعلقات رکھنے کی ممانعت:

            اس آیت سے معلوم ہواکہ بدمذہبوں  سے دوستی اور تعلق نہیں  رکھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنی چاہئے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں  اور اپنی چکنی چپڑی باتوں  ، ظاہری عبادت و ریاضت اور دکھلاوے کی پرہیز گاری کے ذریعے دوسروں  کو بھی گمراہ کر دیتے ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ    رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ   سے روایت ہے، حضور اقدس    صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت کے آخر میں  کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں  گے جو تم سے ایسی باتیں  کریں  گے جنہیں  نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپ دادا نے، تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں  (خود سے) دور رکھنا۔( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۶(۶))

            اسی کتاب کی دوسری روایت میں  ہے ،حضور پُر نور    صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  ارشاد فرمایا ’’آخری زمانے میں  دَجّال اور کذّاب ظاہر ہوں  گے ،وہ تمہارے پاس ایسی باتیں  لے کر آئیں  گے جنہیں  تم اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنا ہو گا تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں  دور رکھنا، کہیں  وہ تمہیں  گمراہ نہ کر دیں  اور تمہیں  فتنے میں  نہ ڈال دیں ۔( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

            بد مذہبوں  سے دور رہنے اور انہیں  خود سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد اَحادیث میں  ان سے زندگی اور موت کے تمام تعلقات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ  ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے پاس نہ بیٹھو ، ان سے رشتہ نہ کرو، وہ بیمار پڑیں  تو پوچھنے نہ جاؤ، مر جائیں  تو ان کی میت کے پاس نہ جاؤ، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھواور نہ ہی ان کے ساتھ نماز پڑھو۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الثالث فی ذکر الصحابۃ وفضلہم۔۔۔الخ، الفصل الاول ، ۶ / ۲۴۶ ، الجزء الحادی عشر ، الحدیث : ۳۲۵۲۵ ،  ۳۲۵۲۶ ، تاریخ بغداد ، حرف الواو من آباء الحسینین ، ۴۲۴۰- الحسین بن الولید ۔۔۔ الخ ، ۸ / ۱۳۹، ملتقطاً)  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔