Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 40 ≫ Translation ≫ Tafsir
الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًاؕ-وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(40)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ: وہ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا۔} یعنی ان لوگوں کو جہاد کی اجازت دے دی گئی جنہیں ان کے گھروں سے صرف اتنی بات پرناحق نکال دیا گیا اور بے وطن کیا گیا کہ انہوں نے کہا ’’ہمارا رب صرف اللہ ہے‘‘ حالانکہ یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعی طور پر ناحق ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۲۸۳، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۹، ملتقطاً)
{وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ:اور اگر اللہ آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا۔}آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین غالب آجاتے اور کوئی دین و ملت والا ان کی سر کشی سے نہ بچ پاتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں یہودیوں کے کلیساؤں ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں راہبوں کی عبادت گاہوں ، عیسائیوں کے گرجوں اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں مسلمانوں کی ان مسجدوں کو گرا دیا جاتا جن میں اللہ تعالیٰ کاکثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۷۴۱، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۳۱۰-۳۱۱، ملتقطاً)
جہاد کی برکت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر گزشتہ زمانہ میں جہاد نہ ہوئے ہوتے تو نہ یہودیوں کے عبادت خانے محفوظ رہتے اور نہ عیسائیوں کے گرجے۔ ہرزمانے میں جہاد کی ایک برکت یہ ہوئی کہ لوگوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہوگئیں ، لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اب ہمارے زمانے میں گرجوں وغیرہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا اس اعتبار سے کوئی احترام نہیں کہ وہ کوئی مقدس جگہیں ہیں ، صرف یہ ہے کہ اسلامی ملک میں غیرمسلموں کو اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت ہے اور ہم انہیں اس معاملے میں چھیڑیں گے نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو حق ہوگا کہ بلاوجہ دوسروں کے عبادت خانے گرائیں ۔ہمیں ہماری شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہم کافروں کو اور ان کے دین کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور اسلام کا پیغام ان کی عبادت گاہیں گرا کر نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے دیں ۔
{وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ:اور بیشک اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کے دین کی مدد کرے گا۔} ارشاد فرمایاکہ جو اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور مہاجرین و اَنصار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو عرب کے سرکش کافر سرداروں پر غلبہ عطا فرمایا ،پھر ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر پر غلبہ عنایت کیا اور ان کی سر زمین اور شہروں کا مسلمانوں کو وارث بنا دیا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۰)