Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 59 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَلِیْمٌ حَلِیْمٌ(59)
تفسیر: صراط الجنان
{لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗ:وہ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے۔} اس سے پہلی آیت میں جن ہستیوں کے لئے جنت کی روزی کا بیان ہوا یہاں ان کی رہائش کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے، وہاں ان کی ہر مراد پوری ہو گی اورانہیں کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی اور بیشک اللہ تعالیٰ ہر ایک کے احوال کو جاننے والا اور قدرت کے باوجود دشمنوں کو جلد سزا نہ دے کر حلم فرمانے والا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۳۱۵، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۵۲، ملتقطاً)
راہِ خدا میں شہید ہونے والا ا س راہ میں طبعی موت مرنے والے سے افضل ہے:
ان آیات سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کی نیت سے مجاہدین کے ساتھ نکلے،پھر اسے طبعی طور پر موت آ جائے تو اسے اور شہید دونوں کو جنت میں اچھا رزق دیاجائے گا، البتہ یہاں یہ بات یاد رہے کہ شہید کا مرتبہ طبعی موت مرنے والے سے بڑا ہے۔چنانچہ علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
’’راہِ خدا میں شہید ہونے والا اور اس راہ میں طبعی موت مرنے والا رزق ملنے کا وعدہ کئے جانے میں برابر ہیں لیکن وعدے میں برابری ا س بات پر دلالت نہیں کرتی کہ جو رزق انہیں عطا کیا جائے گااس کی مقدار بھی برابر ہو گی،دیگر دلائل اور ظاہر ِشریعت سے یہ ثابت ہے کہ شہید (طبعی موت مرنے والے سے) افضل ہے۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۵۸، ۶ / ۳۵۴، ملخصًا)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :ا س آیت میں شہید ہونے والے اور طبعی موت مرنے والے، دونوں کے لئے ایک جیسا وعدہ کیا گیا ہے کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے اور دین کی مدد کرنے نکلے ہیں اور بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’ راہِ خدا میں شہید ہونے والے اور طبعی موت مر جانے والے دونوں حضرات کو اچھی روزی ملے گی لیکن ا س آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ راہِ خدا میں شہید ہونے والے اور طبعی موت مرنے والے کا اجر ہر اعتبار سے برابر ہے بلکہ ان دونوں کے حال میں فرق ہونے کی بنا پر انہیں ملنے والی اچھی روزی میں بھی فرق ہو گا کیونکہ راہِ خدا میں شہید ہونے والے کو طبعی موت مرنے والے پر فضیلت حاصل ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخم پہنچے اوراس کا خون بہا (جبکہ طبعی موت مرنے والے کو یہ تکلیفیں برداشت نہیں کرنی پڑیں ۔) نیزشہید کے طبعی موت مرنے والے سے افضل ہونے پر کثیر دلائل موجود ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں ۔
(1)…نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی گئی:کون سا جہاد (یعنی مجاہد) افضل ہے؟ارشاد فرمایا: ’’جس کا خون بہایا جائے اور اس کا گھوڑا زخمی کر دیا جائے۔( ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب القتال فی سبیل اللّٰہ، ۳ / ۳۵۸، الحدیث: ۲۷۹۴)
(2)…راہِ خدا میں شہید ہونے والاقیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ ا س کے خون سے مشک کی خوشبو آ رہی ہو گی۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزّ وجلّ، ۲ / ۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳) جبکہ راہِ خدا میں طبعی موت مرنے والے کو یہ فضیلت حاصل نہ ہو گی۔
(3)…شہید ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ اسے دوبارہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کیا جائے۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الحور العین وصفتہنّ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۲، الحدیث: ۲۷۹۵) لیکن طبعی موت مرنے والاایسی تمنا نہ کرے گا۔
(4)…راہِ خدا میں شہید ہونے سے (مخصوص گناہوں کے علاوہ) تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۱۶۴۸) اور طبعی موت مرنے والے کے لئے ایسی کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی۔
(5)…راہِ خدا میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جاتا جبکہ راہِ خدا میں طبعی موت مرنے والے کو غسل دیا جاتا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۵۲-۵۳، ملخصاً)