Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 60 ≫ Translation ≫ Tafsir
ذٰلِكَۚ-وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ(60)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ عَاقَبَ: اور جو سزا دے۔} اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کااجر و ثواب بیان کیاگیا جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گئے یا انہیں طبعی طور پر موت آ گئی اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو مسلمانوں پر زیادتی کرے گا اس کے خلاف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرماتا رہے گا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان کسی ظالم کو ویسی ہی سزا دے جیسی اسے تکلیف پہنچائی گئی تھی اور بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے، پھر بھی اس مسلمان پر زیادتی کی جائے تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالم کے خلاف اس کی مدد فرمائے گا،، بیشک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو معاف کرنے والا اور ان کی بخشش فرمانے والا ہے۔ شانِ نزول:یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی جو محرم کے مہینے کی آخری تاریخوں میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں نے مبارک مہینے کی حرمت کے خیال سے لڑنا نہ چاہا، مگر مشرک نہ مانے اور انہوں نے لڑائی شروع کر دی، مسلمان ان کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد فرمائی۔( البحر المحیط ، الحج ، تحت الآیۃ : ۶۰، ۶ / ۳۵۴، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۵۳، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۲۱۵، ملتقطاً)
ظلم کے مطابق سزا دیناعدل و انصاف اور معاف کر دینا بہتر ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص جتنا ظلم کرے اسے اتنی ہی سزا دینا عدل و انصاف ہے، لیکن ممکنہ صورت میں بدلہ لینے کی بجائے ظالم کو معاف کر دینا بہر حال بہتر اور افضل ہے کیونکہ معاف کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے: ’’فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘(بقرہ:۱۹۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: توجو تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہواور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰)وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍؕ(۴۱) اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲)وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ‘‘(شوری:۴۰۔۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔اور بے شک جس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا ان کی پکڑ کی کوئی راہ نہیں ۔ گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں ،ان کے لیےدردناک عذاب ہے۔ اور بیشک جس نے صبر کیااورمعاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک مُنادی یہ اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ مُنادی کہے گا :ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں ) کو معاف کرنے والے ہیں ۔پھر تیسری بار مُنادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۹۹۸)
بدلہ نہ لینے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کی خطاؤں سے در گزر فرماتے اور ان کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کی بجائے معاف کر دیاکرتے تھے،چنانچہ حضرت ابو عبد اللہ جدلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا’’حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طبعی طور پر فحش باتیں کرنے والے نہ تھے اور نہ ہی تَکَلُّف کے ساتھ فحش کہنے والے تھے اور آپ بازاروں میں شور کرنے والے بھی نہ تھے۔آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا کرتے بلکہ معاف کر دیتے اور در گزر فرمایاکرتے تھے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی خلق النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۳ / ۴۰۹، الحدیث: ۲۰۲۳)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی معاملے میں اپنی ذات کاکبھی انتقام نہیں لیا خواہ آپ کو کیسی ہی تکلیف دی گئی ہو،ہاں جب اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کے لئے (ان کا) انتقام لیا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ، باب کم التعزیر والادب، ۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۶۸۵۳)