Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 76 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ(75)یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(76)
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ: اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے رسول چن لیتا ہے۔} گزشتہ آیات میں توحید کابیان تھا اوراس آیت میں رسالت کابیان کیاجارہاہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں اورانسانوں میں سے جسے چاہتا ہے اسے رسالت کا منصب عطا فرما دیتا ہے۔ فرشتوں میں مثلاًحضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام اورانسانوں میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔ شانِ نزول: یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہوسکتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے، وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۱۷-۳۱۸، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۷۴۹، ملتقطاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر رسولوں کا چناؤ ختم ہو گیا:
یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ انسانوں کی ہدایت کیلئے ان میں سے ہی بعض کو منصبِ رسالت کے لئے چن لینا اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت ہے لیکن ا س کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد بھی لوگوں کو رسالت کے عظیم منصب کے لئے چنتا رہے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کیلئے جنہیں چننا تھا چن لیا اور جنہیں چن لیا وہ دائمی نبی اور رسول ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نبوت و رسالت کا منصب ختم فرما دیاہے لہٰذا ان کی تشریف آوری کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ اختتام پزیر ہو گیا اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ‘‘(احزاب:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اور صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی ان کا خلیفہ ہوتا، (لیکن یاد رکھو!) میرے بعد ہر گز کوئی نبی نہیں ہے،ہاں عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ۲ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۴۵۵)
اور سنن ترمذی میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، تو میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی نبی۔( ترمذی، کتاب الرؤیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ذہبت النبوّۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۱، الحدیث: ۲۲۷۹)
{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ: وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ دنیا کے اُمور کو بھی جانتا ہے اور آخرت کے اُمور کو بھی، یااس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گزرے ہوئے اعمال کو بھی جانتا ہے اور آئندہ کے احوال کا بھی علم رکھتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۷۴۹)