Home ≫ ur ≫ Surah Al Haqqah ≫ ayat 21 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ(21)فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍ(22)قُطُوْفُهَا دَانِیَةٌ(23)كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ(24)
تفسیر: صراط الجنان
{فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ: تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔} یہاں سے ان لوگوں کا ثواب بیان کیا گیا ہے جنہیں اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ملیں گے،چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ عذاب سے محفوظ رہنے اور ثواب ملنے کی وجہ سے بلند باغ میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا ،اس کے پھل کھانے والے کے قریب ہوں گے کہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حال میں جیسے چاہے بآسانی لے سکے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم نے جو نیک اعمال آخرت کیلئے کئے ان کے بدلے میں خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۴، ۴ / ۳۰۵)
نیک سیرت چرواہا:
حضرت نافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ساتھ مدینہ منورہ کی ایک وادی میں گیا۔ ہمارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ۔انہوں نے اپنا دستر خوان لگایا اور سب کھانا کھانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے ایک چرواہا گزرا ، حضر ت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس سے فرمایا’’ آیئے !آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناوُل فرمائیے ۔چرواہے نے جواب دیا ’’میرا روزہ ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا:’’ تم اس شدید گرمی کے عالَم میں سارا دن جنگل میں بکریاں چَراتے اوراتنی مشقت کا کام کرتے ہو اور پھر بھی تم نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے؟ کیاتم پر نفلی روزہ رکھنا ضروری ہے؟یہ سن کر وہ چرواہا کہنے لگا ’’حضور! کیا وہ وقت آگیا جس کے بارے میں قرآنِ پاک میں فرمایا گیا کہ
’’كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ‘‘(الحاقہ:۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (کہا جائے گا:)گزرے ہوئے دنوں میں جو تم نے آگے بھیجا اس کے بدلے میں خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس چرواہے کی باتیں سن کر بڑے حیران ہوئے او راس سے فرمانے لگے ’’ تم ہمیں ایک بکری فروخت کر دو ہم اسے ذبح کریں گے،تمہیں اس کا گوشت بھی کھلائیں گے اور بکری کی مناسب قیمت بھی دیں گے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ بات سن کرو ہ چرواہا عرض گزار ہوا: حضور! یہ بکریاں میری مِلکِیَّت میں نہیں بلکہ یہ میرے آقا کی ہیں ، میں تو غلام ہوں میں انہیں کیسے فروخت کر سکتاہوں ؟ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی امانت داری سے بہت مُتأثّر ہوئے اور ہم سے فرمایا ’’یہ بھی تو ممکن تھا کہ یہ چرواہا ہمیں بکری بیچ دیتا اور جب اس کا آقا پوچھتا تو جھوٹ بول دیتا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا لیکن دیکھو یہ کتنا امین اورمُتّقی چرواہا ہے ۔چرواہے نے بھی یہ بات سن لی، اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا’’اگر چہ میرا آقا مجھے نہیں دیکھ رہا لیکن میرا پر وردگار عَزَّوَجَلَّ تو مجھے دیکھ رہا ہے ،میرا رب عَزَّوَجَلَّ تو میرے ہر ہر فعل سے باخبر ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس چرواہے کی باتوں اور نیک سیرت سے بہت مُتأثّر ہوئے اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس چرواہے کے مالک کے پاس پہنچے اور اس نیک چرواہے کو خرید کر آزاد کردیا اور ساری بکریاں بھی خرید کر اس چرواہے کو تحفے میں دے دیں ۔( عیون الحکایات، الحکایۃ السابعۃ والسبعون، ص۹۸-۹۹، ملتقطاً)