banner image

Home ur Surah Al Haqqah ayat 33 Translation Tafsir

اَلْحَآ قَّة

Al Haqqah

HR Background

اِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ(33)وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِﭤ(34)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہ دیتا۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ: بیشک وہ عظمت والے اللّٰہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اسے یہ شدید عذاب اس لئے دیا جائے گا کہ وہ دنیا میں  اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا تھا اوراس کی عظمت و وحدانیَّت کا اعتقادنہ رکھتا تھا اور وہ اپنے کفر کے ساتھ ساتھ نہ اپنے نفس کو ،نہ اپنے اہلِ خانہ کو اور نہ دوسروں  کو مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب دیتا تھا۔

            حضرت عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ اس میں  اشارہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا قائل نہ تھا کیونکہ مسکین کو کھانا دینے والا مسکین سے تو کسی بدلہ کی اُمید رکھتا ہی نہیں  بلکہ محض اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور ثوابِ آخرت کی اُمید پر مسکین کو دیتا ہے اور جومرنے کے بعد اٹھائے جانے اور آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو تو اُسے مسکین کو کھلانے کی کیا غرض ہے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۴ / ۳۰۶، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۱۲۷۶، ملتقطاً)

مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب:

            اس سے معلوم ہوا کہ مسکین کو کھانا کھلانے اور ا س کی ترغیب دینے کی بہت اہمیت ہے اور اسے محروم کرنا جرمِ عظیم ہے۔ مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں  تک کہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے اس کا    محتاج ہے کہ لوگوں  سے سوال کرے اور اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔( عالمگیری، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ۱ / ۱۸۷-۱۸۸)

            مسکین کو کھانا کھلانے کا ثواب بہت زیادہ ہے ، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا ‘‘(دہر:۸،۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اللّٰہ کی محبت میں  مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تمہیں  خاص اللّٰہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں  اور نہ شکریہ۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘ۖ(۱۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُؕ(۱۲) فَكُّ رَقَبَةٍۙ(۱۳) اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍۙ(۱۵) اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍؕ(۱۶) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِؕ(۱۷) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ‘‘( بلد:۱۱۔۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں  نہ گھاٹی میں کود پڑا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔ یا بھوک کے دن میں کھانا دینا۔ رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاک نشین مسکین کو۔ پھر یہ ان میں سے ہو جو ایمان لائے اور انہوں  نے آپس میں  صبر کی نصیحتیں  کیں  اور آپس میں  مہربانی کی تاکیدیں  کیں ۔ یہی لوگ دائیں  طرفوالے ہیں ۔

            اورحضر ت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک اللّٰہ تعالیٰ روٹی کے ایک لقمے اور کھجوروں  کے ایک خوشے اوران جیسی مَساکین کے لئے نفع بخش چیزوں  کی وجہ سے تین آدمیوں  کو جنت میں  داخل فرمائے گا (1)گھر کے مالک کو جس نے صدقے کا حکم دیا۔ (2)اس کی زوجہ کو جس نے وہ چیز درست کرکے دی۔ (3)اس خادم کو جس نے مسکین تک وہ صدقہ پہنچایا ۔پھر رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ’’اس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد ہے جو ہمارے خادموں  کو بھی نہیں  بھولا۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)

            خیال رہے کہ فی زمانہ ہر بھکاری اور مانگنے والے کو نہیں  دینا چاہئے بلکہ جو واقعی اس حالت کو پہنچ چکا ہو کہ شرعی طور پر ا س کے لئے سوال کرنا جائز ہو جائے اسے مانگنے پر دینا چاہئے۔فتاویٰ رضویہ میں  مذکور مسئلے کا خلاصہ ہے کہ جو تندرست ہو اور کمانے پر قادر ہو تو اسے جانتے بوجھتے بھیک دینا ناجائز ہے اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے اُس کے سوال پر جو کہ ا س کے لئے حرام تھا بھیک دے کر اس کی مدد کرتے ہیں  ،اگر لوگ اسے نہ دیں  تو وہ مجبور ہو جائیں  گے اور کمانے کی کوشش کریں  گے۔( فتاوی رضویہ،رسالہ: بدر الانوار فی اٰداب الاٰثار، ۲۱ / ۴۲۰)