banner image

Home ur Surah Al Hashr ayat 18 Translation Tafsir

اَلْحَشْر

Al Hashr

HR Background

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(18)

ترجمہ: کنزالایمان اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیجا اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ: اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو۔} گزشتہ آیات میں  یہودیوں  کی عہدشکنی اور منافقین کے مکروفریب کوبیان کیاگیا اوراب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!تم جو کام کرتے ہو اور جو چھوڑتے ہو ہر ایک میں  اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو اور ہر  جان دیکھے کہ اس نے قیامت کے دن کے لئے کیا اعمال کیے اورتمہیں  مزید تاکید کی جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں  سرگرم رہو، بیشک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے(لہٰذا جب گناہ کرنے لگوتو سوچ لو  کہ اللّٰہ  تعالیٰ ہمارے اس گناہ کو دیکھ رہا ہے ، وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا اور اس کی سزا دے گا) ۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۴۴۷-۴۴۸)

مُراقبہ کی اصل:

            اس آیت سے معلو م ہواکہ ایک گھڑی غورو فکر کرنا بہت سے ذکر کرنے سے بہتر ہے۔ اپنے اعمال کے بارے میں  سوچنا بہت افضل عمل ہے اور یہی مراقبہ ہے۔

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(آخرت کے معاملے میں )گھڑی بھر غورو فکر کرنا60سال کی عبادت سے بہتر ہے۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، التفکّر، الجزء الثالث، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۵۷۰۷) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے اُخروی معاملات کے بارے میں  مراقبہ اور غور و فکرکرتا رہے ۔ مراقبہ کا معنی اور اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :مراقبہ کا معنی ہے نگہبانی کرنا،جس طرح اپنا مال شریک کے حوالے کرکے شرط رکھی جاتی ہے اور عہدوپیمان کے بعد بھی بے خبر ہو کر نہیں  بیٹھ رہتے اسی طرح ہر وقت نفس کی خبر گیری کرتے رہنابھی ضروری ہے کیونکہ اگر تم اس سے غافل ہوگئے تو وہ کاہلی اور خواہشات کو پورا کرنے کے سبب پھر سے سرکش ہوجائے گا۔مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہر فعل اور ہر خیال سے واقف ہے اور ا س سے کسی بات کا کوئی پہلو پو شیدہ نہیں  ہے ،لوگ اگرصرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں  تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ظاہر و باطن دونوں  کو دیکھتا ہے۔ جس نے یہ بات سمجھ لی اور یہ آگہی اس کے دل پر غالب آگئی تو اس کا ظاہر و باطن زیورِ ادب سے آراستہ ہوجائے گا۔ انسان اگر اس بات پر یقین کرے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ظاہر و باطن سے واقف نہیں  ہے تو وہ کافر ہے اور اگر اس پر ایمان لایا ،پھر اس کی مخالفت کی تو وہ بڑا دلیر اور بے شرم ہے ۔( کیمیاء سعادت، رکن چہارم، اصل ششم در محاسبت ومراقبت، ۲ / ۸۸۵-۸۸۶)

            ترغیب کے لئے یہاں  بزرگانِ دین کے مُراقبہِ فکر ِآخرت سے متعلق تین واقعات بھی ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :میں  ایک باغ میں  گیا تو وہاں  حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُ کی آواز سنی،ہم دونوں  کے درمیان ایک دیوار حائل تھی اور وہ کہہ رہے تھے:عمر ،خطاب کا بیٹااور امیر المومنین کا منصب!  واہ کیا خوب!اے عمر!اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ورنہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  سخت عذاب دے گا۔( تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، فصل فی نبذ من سیرتہ، ص۱۰۲)

(2)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب کسی قبر پر تشریف لے جاتے تو اس قدر روتے کہ ان کی داڑھی آنسوؤں  سے تر ہو جاتی۔آپ کی خدمت میں  عرض کی گئی :جنت اور دوزخ کے تذکرے پر آپ اتنا نہیں  روتے جتنا قبر پر روتے ہیں  ،(اس کی حکمت کیا ہے؟)آپ نے فرمایا:میں  نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے ،اگر قبر والے نے اس سے نجات پا لی تو بعد(یعنی قیامت)کا معاملہ آسان ہے اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو بعد کا معاملہ زیادہ سخت ہے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں  نے قبر سے زیادہ ہَولناک منظر کوئی نہیں  دیکھا۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۵-باب، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۵)

(3)…حضرت ضرار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں  :میں  خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں  کہ میں  نے امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم  کو کئی مرتبہ دیکھا کہ رات کی تاریکی میں آپ اپنے محراب میں  لرزاں  و ترساں  اپنی داڑھی مبارک تھامے ہوئے ایسے بے چین بیٹھے ہوتے کہ گویا زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو ۔ آپ غم کے ماروں  کی طرح روتے اور بے اختیار ہوکر ’’اے میرے رب ! اے میرے رب ! ‘‘پکارتے ، پھر دنیا سے مخاطَب ہو کر فرماتے ،’’تو مجھے دھوکے میں  ڈالنے کے لئے آئی ہے ؟ میرے لئے بن سنور کر آئی ہے ؟ دور ہوجا! کسی اور کو دھوکا دینا ، میں  تجھے تین طلاق دے چکاہوں  ، تیری عمر کم ہے اور تیری محفل حقیرجبکہ تیرے مصائب جھیلنا آسان ہیں  ، آہ صد آہ!زادِ راہ کی کمی ہے اور سفرطویل ہے جبکہ راستہ وحشت سے بھر پور ہے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، علی بن ابی طالب، ۱ / ۱۲۶، روایت نمبر: ۲۶۱)