banner image

Home ur Surah Al Hashr ayat 7 Translation Tafsir

اَلْحَشْر

Al Hashr

HR Background

مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ- كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْؕ-وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِﭥ(7)

ترجمہ: کنزالایمان جو غنیمت دلائی اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے وہ اللہ اور رسول کی ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے کہ تمہارے اغنیا کا مال نہ ہوجائے اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے جو غنیمت دلائی تووہ اللہ اور رسول کے لیے ہے اور رشتہ داروں کے لیے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان (ہی) گردش کرنے والی نہ ہوجائے اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى: اللّٰہ نے اپنے رسول کو شہر والوں  سے جو غنیمت دلائی ۔} بعض مفسرین کے نزدیک پہلی آیت میں  غنیمت کا جو حکم مذکور ہوا اس آیت میں  اسی کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور بعض مفسرین نے اس قول کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی آیت بنو نضیر کے اَموال سے متعلق نازل ہوئی ،ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول کیلئے خاص کیا اور یہ آیت ہر اس شہر کے اَموالِ غنیمت کے بارے میں  ہے جس کو مسلمان اپنی قوت سے حاصل کریں  اور یہاں  ان اَ موال کے پانچویں  حصے کا مَصْرَف بیان کیا گیا ہے ۔

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہر والوں  سے جو غنیمت دلائی وہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے اوران کے ساتھ ساتھ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے رشتہ داروں ( یعنی بنی ہاشم اوربنی مُطّلِب)کیلئے اور یتیموں  ، مسکینوں  اور مسافروں  کے لیے ہے تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں  کے درمیان گھومنے والی چیز نہ ہوجائے اور غریب ،فقیر لوگ نقصان میں  رہیں  ۔ زمانہ ِ جاہلیّت میں  دستور تھا کہ غنیمت میں  سے ایک چوتھائی تو سردار لے لیتا اور باقی قوم کیلئے چھوڑ دیتا تھا، اس میں  سے مال دار لوگ بہت زیادہ لے لیتے اور غریبوں  کیلئے بہت ہی تھوڑا بچتا تھا ،اسی معمول کے مطابق لوگوں  نے سرکارِ دوعالَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ حضورغنیمت میں  سے چوتھائی لیں ، باقی ہم باہم تقسیم کرلیں  گے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمادیا اور تقسیم کا اختیار نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو دیا اور اس کا طریقہ ارشاد فرمایا۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۴۷، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۲۴، ملتقطاً)

{وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا: اوررسول جو کچھ تمہیں  عطا فرمائیں  وہ لے لو اور جس سے تمہیں  منع فرمائیں  تو تم باز رہو۔ }  اس کا ایک معنی یہ ہے کہ رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غنیمت میں  سے جو کچھ تمہیں  عطا فرمائیں  وہ لے لو کیونکہ وہ تمہارے لئے حلال ہے اور جو چیز لینے سے منع کریں  اس سے باز رہو اور اس کا مطالبہ نہ کرو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  تمہیں  جو حکم دیں  اس کی اِتّباع کرو کیونکہ ہر حکم میں  نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اطاعت واجب ہے اور جس سے منع فرمائیں  اس سے باز رہو ۔مزید فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو ،نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت نہ کرواور ان کے حکم کی تعمیل میں  سستی نہ کرو، بیشک اللّٰہ تعالیٰ اسے سخت عذاب دینے والاہے جو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نافرمانی کرے۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۴۲۹، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۲۴، ملتقطاً)