Home ≫ ur ≫ Surah Al Hijr ≫ ayat 49 ≫ Translation ≫ Tafsir
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(49)وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(50)
تفسیر: صراط الجنان
{نَبِّئْ عِبَادِیْ:میرے بندوں کو خبردو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو گناہ کرنے سے ڈرایا گیا اور جو گناہ ہو چکے ان سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ میرے بندوں کو بتا دیں کہ جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں تو میں ہی ان کے گناہوں پر پردہ ڈال کر ان گناہوں کے سبب ہونے والی رسوائی اور عذاب سے انہیں بچاتا ہوں اور گناہوں سے توبہ کرنے کے بعد انہیں عذاب نہ دے کر ان پر رحم فرماتا ہوں اور میرے بندوں کو یہ بھی بتا دیں کہ میرا عذاب ان کے لئے ہے جواپنے گناہوں پر قائم رہیں اور ان سے توبہ نہ کریں ۔ میرا عذاب اتنا دردناک ہے کہ اس جیسا دردناک کوئی عذاب ہو ہی نہیں سکتا۔(تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۷ / ۵۲۱-۵۲۲)
امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے:
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے یہ معلوم ہو اکہ بندوں کو امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بے باک ہوں نہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہوں ۔ اسی سے متعلق صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس روز اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کئے اور 99 حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ مخلوق کے لئے بھیج دیا۔ اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ ا س کے پا س کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الرجاء مع الخوف، ۴ / ۲۳۹، الحدیث: ۶۴۶۹)اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۲، الحدیث: ۲۳(۲۷۵۵))
یہاں امید اور خوف کے درمیان رہنے کی ایک بہترین صورت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اگر آسمان سے کوئی اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے کہ’’اے لوگو! تم سب کے سب جنت میں داخل ہو جاؤ گے لیکن ایک شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ تو میں اس بات سے ضرور ڈروں گا کہ کہیں وہ شخص میں ہی نہ ہوں،اور اگر اعلان کرنے والا یہ کہے کہ اے لوگو! تم سب جہنم میں جاؤ گے البتہ ایک شخص جہنم میں نہیں جائے گا۔ تو میں ضرور یہ امید رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عمر بن الخطاب، ۱ / ۸۹، روایت نمبر: ۱۴۲)
سورۂ حجر کی آیت نمبر 49 اور 50 سے حاصل ہو نے والی معلومات:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان آیات کے تحت چند نِکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(1)… اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میرے بندوں کو خبر دو‘‘ اس میں بندوں کی عزت افزائی ہے اور جس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ ہے تو وہ اس عزت و تعظیم میں داخل ہے۔
(2)…جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و مغفرت کا ذکر کیا تو اسے بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا اور جب عذاب کا ذکر کیا تو اسے خبر دینے کے انداز میں بیان کیا (نیز اپنی رحمت و مغفرت کا ذکر پہلے اور عذاب کاذکر بعد میں فرمایا)یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اس کے غضب و عذاب پر سبقت رکھتی ہے۔
(3)…اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ وہ اس کے بندوں تک میری رحمت و مغفرت اور عذاب کی بات پہنچا دیں تو گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت و مغفرت کا اِلتزام فرمانے میں اپنی ذات پر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنایا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۱۰۴)
یہی نِکات امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی تفسیر کبیر میں بیان فرمائے ہیں ،اسی مقام پر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں کہ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘کا معنی ہے کہ ہر اس شخص کو خبر دے دیں جو میرا بندہ ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔‘‘اس میں جس طرح اطاعت گزار مومن داخل ہے اسی طرح گناہگار مومن بھی اس میں داخل ہے اور یہ سب باتیں اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت (اس کے غضب پر) غالب ہے۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۱۴۹)
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے:
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کا اس کے غضب پر غالب ہونے کا ذکر کثیر اَحادیث میں صراحت کے ساتھ بھی موجود ہے، چنانچہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی اور ابن ما جہ وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تو لوحِ محفوظ میں جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے،لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آ گئی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللّٰہ تعالی: وہو الذی یبدأ الخلق۔۔۔الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۴)
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔(مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۱، الحدیث: ۱۵(۲۷۵۱))دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ فرمائے اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اَنَّ عَذَابِیْ:اوربیشک میرا عذاب۔} یاد رہے کہ جو کفر کی حالت میں مرا وہ تو جہنم کے دردناک عذاب میں ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو گا البتہ جو گناہگار مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر انتقال کر گیا تو اس کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اُسے گناہوں کی سزا دے یا چاہے تو اپنی رحمت سے اس کے تمام گناہ بخش دے اور اسے جنت عطا فرما دے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہونے کے اَسباب:
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں جن سے بندے کو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت حاصل ہو تی ہے اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن سے بندہ اللّٰہ تعالیٰ کے شدید اور دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں سے 6 اَسباب یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ، ان اسباب میں کئی جگہ قدرِ مُشترک بھی ہے لیکن اپنے ظاہر کے اعتبار سے جدا جدا ہیں ۔
(1)…کفر کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران: ۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس جو لوگ کافر ہیں تومیں انہیں دنیاو آخرت میں سخت عذاب دوں گا اور ان کاکوئی مددگار نہ ہوگا۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ‘‘(زمر:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور قیامت کے دن تم اللّٰہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیامتکبروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے؟
(3)…منافقت اختیار کرنا۔ چنانچہ منافقوں کے بارے میںاللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ‘‘(بقرہ:۹-۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ لوگ اللّٰہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللّٰہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔
(4)…اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی نافرمانی کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا(۸) فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ كَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا(۹)اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاۙ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ ﲬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘(طلاق:۸-۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انہیں برا عذاب دیا ۔تو انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام گھاٹا ہوا۔اللّٰہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللّٰہ سے ڈرو اے عقل والو جو ایمان لائے ہو۔
(5)…اللّٰہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں تکبر کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(مومن:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
(6)…مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا‘‘(النساء:۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گااور اللّٰہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔