Home ≫ ur ≫ Surah Al Hijr ≫ ayat 6 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌﭤ(6)لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓىٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(7)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا:اور کافروں نے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا تھااور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے متعلق کفار کے شبہات ذکر کر کے ان کے جوابات دئیے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۱۲۱، ملخصاً)
کفارِ مکہ کے ایک اعتراض کی وجوہات:
مکہ کے مشرکین ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑاتے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عموماً لوگ جب کسی سے عجیب و غریب کلام سنتے ہیں جو ان کی عقل میں نہ آئے تو وہ اس قائل کومجنون سمجھتے ہیں ، یہی حال مکہ کے مشرکین کا تھا کیونکہ جب سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت، اپنی رسالت ، قرآن کی حقانیت اور قیامت کے وقوع کی خبر دی تو یہ ان کیلئے نہایت تعجب انگیز تھی ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یہ تعجب کہ ایک انسان رسول کیسے ہوسکتا ہے اور قیامت کے بارے میں یہ کہ گلی سڑی ہڈیاں کیسے دوبارہ زندہ ہوسکتی ہیں اور اسی طرح توحید اور قرآن کے بارے میں ان کے شبہات تھے۔ نیز یہ کلام بطورِ تَمَسخُر بھی تھا اور انجان لوگوں کو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دور کرنے کیلئے پروپیگنڈا بھی تھا۔
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پیارے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کفار کا جنون کی نسبت کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی اس طرح ہوتا رہا ہے ، جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں فرعون نے بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مجنون کہا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(الشعراء:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(فرعون نے)کہا: بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے۔
یونہی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مجنون کہا تھا، قرآنِ مجید میں ہے
’’ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ‘‘(القمر:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کوجھڑکا گیا۔
بلکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے رسول تشریف لائے سب کو ان کی قوموں نے جادو گر یا دیوانہ کہا تھا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’ كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ‘‘(الذاریات:۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یونہی جب ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو وہ یہی بولے کہ (یہ)جادوگر ہے یا دیوانہ۔
{لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓىٕكَةِ:ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے؟} کفارِ مکہ نے حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا ’’ اگر آپ اپنی ا س بات میں سچے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر ہماری طرف مبعوث فرمایا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کتاب نازل فرمائی ہے تو پھر آپ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے تاکہ وہ آپ کے دعوے کی سچائی پر گواہی دیں کیونکہ جب اللّٰہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے تو آپ کی نبوت کو ثابت کرنے کیلئے فرشتہ بھی بھیج سکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے اس شبہ کا جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔