banner image

Home ur Surah Al Hijr ayat 91 Translation Tafsir

اَلْحِجْر

Al Hijr

HR Background

وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ(89)كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَ(90)الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(91)

ترجمہ: کنزالایمان اور فرماؤ کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا ۔ جیسا ہم نے بانٹنے والوں پر اتارا۔ جنہوں نے کلامِ الٰہی کو تکے بوٹی کرلیا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور تم فرماؤ کہ میں ہی صاف ڈر سنانے والاہوں ۔ جیسا ہم نے تقسیم کرنے والوں پر اتارا۔ جنہوں نے کلامِ الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قُلْ:اور تم فرماؤ ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرما دیں کہ میں ہی عذاب کا صاف  ڈر سنانے والا ہوں کہ سرکشی میں تمہاری زیادتی کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا اللّٰہ تعالیٰ نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا۔(تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۷ / ۵۴۳)

{اَلَّذِیْنَ:جنہوں  نے۔ }تقسیم کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں ؟ اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :

(1)…حضرت  عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں کہ تقسیم کرنے والوں سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں،  کیونکہ انہوں نے قرآنِ پاک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا یعنی قرآنِ کریم کا جو حصہ اُن کی کتابوں کے موافق تھا وہ اس پر ایمان لائے اور باقی کے منکر ہوگئے۔

(2)…حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اور ابن سائب کا قول ہے کہ بانٹنے والوں  سے کفارِ قریش مراد ہیں ،ان میں سے بعض کفار  قرآن کو جادو، بعض کہانت اور بعض افسانہ کہتے تھے، اس طرح انہوں نے قرآنِ کریم کے بارے میں       اپنے اقوال تقسیم کر رکھے تھے ۔

(3)… ایک قول یہ ہے کہ بانٹنے والوں سے وہ بارہ اَشخاص مراد ہیں جنہیں کفار نے مکہ مکرمہ کے راستوں پر مقرر کیا تھا، حج کے زمانے میں ہرہر راستہ پر ان میں سے ایک ایک شخص بیٹھ جاتا تھااور وہ آنے والوں کو بہکانے اور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُنحرف کرنے کے لئے ایک ایک بات مقرر کرلیتا تھا کہ کوئی آنے والوں سے یہ کہتا تھا ’’اُن کی باتوں میں نہ آنا کہ وہ جادو گر ہیں ، کوئی کہتا وہ کذّاب ہیں ، کوئی کہتا وہ مجنون ہیں ، کوئی کہتا وہ کاہن ہیں ، کوئی کہتا وہ شاعر ہیں ۔ یہ سن کر لوگ جب خانہ کعبہ کے دروازے پر آتے تو وہاں ولید بن مغیرہ بیٹھا رہتا، اس سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال دریافت کرتے اور کہتے کہ ہم نے مکہ مکرمہ آتے ہوئے شہر کے کنارے اُن کی نسبت ایسا سنا۔ وہ کہہ دیتا کہ ٹھیک سنا ۔اس طرح مخلوق کو بہکاتے اور گمراہ کرتے، ان لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہلاک کیا۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۰۹-۱۱۰، مدارک،  الحجر، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۵۸۷، خزائن العرفان، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۴۹۸، ملتقطاً)

عذاب کی تشبیہ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب:

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس مقام پر ایک اعتراض قائم کر کے اس کا جواب دیا ہے ،وہ اعتراض یہ ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے اسے کسی ایسی چیز کے ساتھ تشبیہ دینی چاہئے کہ جو واقع ہو چکی ہو تاکہ اس کے ذریعے نصیحت حاصل ہو حالانکہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت تک تو تقسیم کرنے والوں پر کوئی عذاب نازل نہیں ہو اتھا ۔ اس کے جواب میں فرماتے ہیں ’’یہاں عذاب کو اس چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کا واقع ہونا یقینی تھاتو یہ گویا کہ ایسے ہے جیسے واقع ہو گیا اور غزوۂ بدر کے دن اس کا وقوع ہو گیاتھا لہٰذا یہاں تقسیم کرنے والوں کے عذاب کے ساتھ ا س عذاب کو تشبیہ دینا درست ہے جس سے ڈرایا گیا ہے۔(صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۰۵۱، ملخصاً)