Home ≫ ur ≫ Surah Al Hujurat ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(5)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا: اور اگر وہ صبر کرتے۔} اس آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوپکارنے کی بجائے صبر اور انتظارکرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے اوراس کے بعدیہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجالاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۶۶، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۶۸، ملخصاً)
علماء اوراسا تذہ کی بارگاہ میں حاضری کا ایک ادب:
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرّب بندوں اور باعمل علماء کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو ان کے آستانے کا دروازہ بجا کر جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے معمول کے مطابق آستانے سے باہر تشریف لے آئیں ۔ہمارے بزرگانِ دین کا یہی طرزِ عمل ہوا کرتا تھا،چنانچہ بلند پایہ عالِم حضر ت ابو عبید رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایاکرتے تھے : میں نے کبھی بھی کسی استادکے دروازہ پردستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے اِستفادہ حاصل کرتا۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا حضر ت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کرنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تو دروازے کے پاس کھڑے ہو جاتے اور ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتے (بلکہ خاموشی سے ان کاانتظار کرتے) یہاں تک کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر تشریف لے آتے ۔حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا یہ طرزِ عمل بہت برا معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا:آپ نے دروازہ کیوں نہیں بجایا(تاکہ میں فوراًباہرآجاتااورآپ کوانتظارکی زحمت نہ اٹھانی پڑتی؟)حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جواب دیا:عالِم اپنی قوم میں اس طرح ہوتاہے جس طرح نبی اپنی امت میں ہوتاہے (یعنی عالِم نبی کا وارث ہوتا ہے) اور (چونکہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ’’ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘ (اس لئے میں نے بھی دروازہ بجانے کی بجائے آپ کے خود ہی تشریف لے آنے کا انتظار کیا) ۔
علامہ آلوسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپناطرزِعمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے یہ واقعہ بچپن میں پڑھا تھا، اس کے بعد میں عمربھراسی کے مطابق اپنے استادوں کے ساتھ معاملہ کرتارہا۔( روح المعانی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۵، ۱۳ / ۴۱۲)
آیت ’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے مزید دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار شریف کے آداب اللہ تعالیٰ نے بنائے اور اسی نے سکھائے ہیں ، یاد رہے کہ یہ آداب صرف انسانوں پر ہی جاری نہیں بلکہ جنوں ،انسانوں اور فرشتوں سب پر جاری ہیں اور یہ آداب کسی خاص وقت تک کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہیں ۔
(2)… اکابرین کی بارگاہ کا ادب کرنابندے کو بلند درجات تک پہنچاتا ہے اور دنیا وآخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔