ترجمہ: کنزالایمان
اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سست پڑے ان مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَكَاَیِّنْمِّنْنَّبِیٍّقٰتَلَ:اور کتنے
ہی انبیاء نے جہاد کیا۔} مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا
جارہا ہے اور انہیں بتایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا، ان کے ساتھ ان کے صحابہ بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے
جہاد کی تکالیف کے باوجود ہمت نہ ہاری اور کمزوری نہ دکھائی اور کافروں کے سامنے
پَسپائی کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں ڈٹے رہے اور مردانہ وار تمام تکالیف و مصائب کو برداشت کرتے رہے
اور صبر و استقامت کے پیکر بنے رہے تو اے مسلمانو! تم تو وہ ہو کہ تمہارے نبی اُن
تمام نبیوں کے سردار ہیں اور تم اُن تمام امتوں سے افضل ہو تو چاہیے کہ تمہاری
بہادری اور استقامت ان سے زیادہ ہو، تمہاری ہمت اور حوصلہ ان سے بڑھ کر ہو، تم میں
صبر کا مادہ ان سے زیادہ ہو، لہٰذا تم بھی اپنے اندر وہی اوصاف پیدا کرو۔اس آیت
کے شروع میں بیان ہوا کہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا اور ان کے ساتھ
رَبّانی لوگ تھے۔ دونوں چیزوں کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جہاد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شرو ع
ہوا، سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد فرمایا، آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کسی نبی نے جہاد نہ
کیا تھا۔ البتہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بہت سے پیغمبروں کی شریعت میں جہاد تھا جیسے حضرت موسیٰ،
حضرت داؤد، حضرت یوشع عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہا اور ربانی لوگوں سے
مراد علماء، مشائخ اور متقی لوگ ہیں جو اللہعَزَّوَجَلَّ کو راضی کرنے کی کوشش میں
لگے رہیں۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲ / ۱۰۰)
آیت’’وَكَاَیِّنْمِّنْنَّبِیٍّ‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:
اس آیتِ مبارکہ میں بہت سے درس ہیں ،ان میں سے 2یہ ہیں :
(1)… افضل کو افضل نیکیاں کرنی چاہئیں ، وہ تمام
ماتحتوں سے عمل میں بڑھ کر ہونا چاہیے، لہٰذا سیدوں ، عالموں اور پیروں کو دوسروں
سے زیادہ نیک ہونا چاہیے۔
(2)… دوسروں کے اعمال دکھا کر، سنا کرکسی کو جوش دِلانا
سنت ِالٰہیہ ہے بلکہ تاریخی حالات کا جاننا اس نیت سے بہت بہتر ہے۔ اسی لئے مختلف
محفلوں ، عرسوں ، بزرگانِ دین کے ایام میں ان کی عبادت و ریاضت، زہد وتقویٰ کے
واقعات بیان کئے جاتے ہیں تاکہ عمل کا جذبہ پیدا ہو۔
سورت کا تعارف
سورۂ اٰلِ عمران کا
تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ آلِ عمران مدینہ
طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن، ال عمران،۱ /
۲۲۸)
آل کا ایک معنی
’’اولاد‘‘ ہے اور اس سورت کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں آیت نمبر33تا 54میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد عمران کی آل کی سیرت اور ان کے
فضائل کا ذکر ہے ،اس مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ آلِ عمران‘‘ رکھا گیا ہے۔
اس سورت کے مختلف فضائل
بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 3فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1) …حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے
والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی۔ حضرت
نواس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ
رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں آج تک نہیں
بھولا، آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ
دونوں سورتیں ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو ایسے سائبان ہوں جن کے درمیان روشنی
ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطاریں ہوں ، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں
کی شفاعت کریں گی۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳،
الحدیث:۲۵۳(۸۰۵))
(2) …حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت
کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔(دارمی، کتاب فضائل
القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۶)
(3) … حضرت مکحول رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے
دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (دارمی، کتاب
فضائل القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۷)
سورۂ آلِ عمران کی اپنے سے ماقبل
سورت ’’ بقرہ ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے، جیسے دونوں سورتوں کے شروع میں
قرآنِ پاک کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک نازل ہونے کا
اِجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں قرآن مجیدکی آیات کی تقسیم بیان
کی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاد کا اجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں
غزوہ ٔ احد کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جن شرعی احکام کو
اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے انہیں سورۂ آلِ عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں یہودیوں کا ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کا
ذکر کیا گیا ہے۔(تناسق الدرر، سورۃ آل
عمران، ص۷۰-۷۳)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت، ان کی پرورش، جس جگہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا وہاں کھڑے ہو کر حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اولاد کے لئے دعا کرنا، حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی بشارت ملنا، اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات و واقعات کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ اس سور ت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1) …اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت اور قرآن کی صداقت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول دین صرف اسلام ہے۔
(3) …حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان کے بارے جھگڑنے والے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کو جھٹلانے والے اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے نجران کے عیسائیوں سے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی ہونے والی گفتگو بیان کی گئی ہے۔
(4) …میثاق کے دن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے عہد لینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5) …مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی فضیلت اور اس ا مت کے باقی تمام امتوں سے افضل ہونے کا بیان ہے۔
(6) …یہودیوں پر ذلت و خواری مُسَلَّط کئے جانے کا ذکر ہے۔
(7) …جہاد کی فرضیت اورسود کی حرمت سے متعلق شرعی احکام اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(8) …غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کا تذکرہ اوراس سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(9) …امت کی خیر خواہی میں مال خرچ کرنے،لوگوں پر احسان کرنے اور بخل نہ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(10) …شہیدوں کے زندہ ہونے،انہیں رزق ملنے اور ان کا اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہونے پر خوش ہو نے کا بیان ہے۔
(11) …اوراس سورت کے آخر میں زمین و آسمان اور ان میں موجود عجائبات اور اَسرار میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،نیزجہاد پر صبر کرنے اور اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔