banner image

Home ur Surah Al Imran ayat 147 Translation Tafsir

اٰلِ عِمْرَان

Al Imran

HR Background

وَ  مَا  كَانَ  قَوْلَهُمْ  اِلَّاۤ  اَنْ  قَالُوْا  رَبَّنَا  اغْفِرْ  لَنَا  ذُنُوْبَنَا  وَ  اِسْرَافَنَا  فِیْۤ  اَمْرِنَا  وَ  ثَبِّتْ  اَقْدَامَنَا  وَ  انْصُرْنَا  عَلَى  الْقَوْمِ  الْكٰفِرِیْنَ(147)

ترجمہ: کنزالایمان وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوا اس دعا کے کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جما دے اور ہمیں ان کافر لوگوں پر مدد دے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  مَا  كَانَ  قَوْلَهُمْ  اِلَّاۤ  اَنْ  قَالُوْا  رَبَّنَا: اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب !۔}  یعنی رسولوں کے ساتھی تکالیف پر بے صبری نہ دکھاتے اوردین کی حمایت اورجنگ کے مقامات میں اُن کی زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہ آتا جس میں گھبراہٹ، پریشانی اور تَزَلْزُل (ڈگمگانے) کا شائبہ بھی ہوتا بلکہ وہ ثابت قدم رہتے اور مغفرت، ثابت قدمی اورفتح و نصرت کی دُعا کرتے۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحابہ کی جو دعا بیان کی گئی ہے اس میں انہوں نے اپنے آپ کو گنہگارکہا ہے، یہ عاجزی، اِنکساری اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے آداب میں سے ہے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو گنہگار کہہ رہے ہیں اور ان کا پروردگار عَزَّوَجَلَّ انہیں رَبّانی یعنی اللہ والے فرما رہا ہے۔ اور حقیقت میں لطف کی بات یہی ہے بندہ خود کو گنہگار کہے اور اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اسے ابرار (نیکو کار) فرمائے۔ کسی بزرگ کا فرمان ہے کہ’’ ساری دنیا مجھے مردود کہے اور ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ، میں مقبول قرار پاؤں یہ اس سے بہتر ہے کہ ساری دنیا مجھے مقبول کہے اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ، میں مردود قرار پاؤں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے سے پہلے توبہ و استغفار کرناآدابِ دعا میں سے ہے۔