Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 190 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ(190)
تفسیر: صراط الجنان
{لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ: عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، میں حضرت میمونہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر رات میں ٹھہرا اورا س دن سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اُن کے ہاں آرام فرما تھے، جب رات کا تہائی حصہ گزرا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو ئے پھر آسمان کی طرف نظر ا ٹھا کران آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب رفع البصر الی السماء، ۴ / ۱۵۹، الحدیث: ۶۲۱۵)
ایک روایت میں ہے کہ تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا:’’اس پر افسوس ہے جویہ آیت پڑھے اوراس میں غور نہ کرے۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب التوبۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۶۱۹)
سائنسی علوم حاصل کرنا کب باعثِ ثواب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ جغرافیہ اور سائنس حاصل کرنا بھی ثواب ہے جبکہ اچھی نیت ہو جیسے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت یااللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم حاصل کرنے کیلئے، لیکن یہ شرط ہے کہ اسلامی عقائد کے خلاف نہ ہو۔ اِس آیت مبارکہ میں آسمان و زمین کی تَخلیق میں قدرت ِ الٰہی کی نشانیوں کا فرمایا گیا ہے لہٰذا اسی کے پیش نظراِس تفکر کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں : امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’قدرتِ الٰہی کی چھٹی نشانی آسمانوں ، ستاروں کی مملکت اور ان کے عجائب میں ہے ، کیونکہ جو کچھ زمین کے اندر اور روئے زمین پر ہے وہ سب کچھ ا س کے مقابلے میں کم ہے۔آسمان اور ستاروں کے عجائب میں تفکر کرنے کے لئے قرآنِ پاک میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ (انبیاء:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ لوگ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(مومن۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔
تو تمہیں حکم دیاگیاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں غوروفکر کرو ۔آسمان کی نیلاہٹ اور ستاروں کی ٹمٹماہٹ کو دیکھ لینا غور نہیں کہ یہ تو جانور بھی کر لیتے ہیں بلکہ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ تو اپنے عجائب اور اپنی ذات کو جو تیرے پاس ہیں اور وہ زمین و آسمان کے عجائب کی بہ نسبت ایک ذرہ بھی نہیں جس کو تو پہچان سکتا تو پھر زمین و آسمان کے عجائب کو کیسے پہچان سکے گا۔ تجھے بَتَدریج معرفت کے درجات پر ترقی کرنی چاہئے۔تجھے پہلے اپنی ذات کو پہچاننا چاہئے ،پھر زمین اور ا س کی تمام اَشیاء کا عرفان حاصل کرنا چاہئے،پھر ہوا ،بادل وغیرہ کے عجائب کی پہچان کرنی چاہئے،پھر آسمان اور ستاروں کی معرفت حاصل کرنی چاہئے ، پھر کرسی اور عرش کو پہچاننا چاہئے،پھر عالَمِ اَجسام سے نکل کر عالمِ ارواح کی سیر کرنی چاہئے،پھر فرشتوں ، جنوں اور شیطانوں کو جاننا چاہئے ،پھر فرشتوں کے درجات اور مقامات کاعرفان حاصل کرنا چاہئے،آسمان اور ستاروں کی گردش، ان کی حرکت اور ان کے مَشارق و مَغارب کو دیکھنا چاہئے کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ستاروں کی کثرت پر غور و فکرکرنا چاہئے۔ انہیں کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا،ان میں ہر ستارے کا رنگ مختلف ہے،کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی شکل مختلف ہے مثلاً کچھ بیل کی شکل کے ہیں اور کچھ بچھو کی شکل کے۔پھر انسان ان کی مختلف حرکات پر غور کرے ، کئی ایک ماہ میں سارے آسمان کو طے کر جاتے ہیں۔کچھ سال بھر لگاتے ہیں ،کئی انہیں طے کرنے میں بارہ سال لگاتے ہیں ،کئی ستارے تیس سالوں میں سارے آسمانوں کی گردش پوری کرتے ہیں ،اکثر ستارے 30,000 سال میں سارے آسمانوں کی مساحت طے کرتے ہیں۔ جب تو نے زمین کے کچھ عجائبات کو جان لیا تو یہ بھی سمجھ لے کہ عجائبات کا فرق ہر ایک چیز کی شکل کے اختلاف کے مطابق ہوتا ہے ، کیونکہ زمین اگرچہ اتنی وسیع ہے کہ کوئی ا س کی حد کو نہیں چھو سکتا مگر سورج زمین سے بڑا ہے۔اس سے معلوم ہو جانا چاہئے کہ آفتاب کتنا دور ہے جو اتنا چھوٹا نظر آتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ آدھی ساعت میں آفتاب کا تمام گھیرا زمین سے نکلتا ہے ۔۔۔۔ یونہی آسمان پر ایک ستارہ ہے جو زمین سے سو گُنا بڑا ہے۔وہ بلندی کی وجہ سے چھوٹا نظر آتا ہے،ایک ستارہ اگر اتنا بڑا ہے تو سارے آسمان کا اندازہ لگائیں کہ وہ کتنا بڑا ہو گا۔ان سب کی عظمت و بزرگی کے باو جو د تیری نگاہوں میں چھوٹاکر دیا گیا تاکہ تو اس سے مالک ِحقیقی کی عظمت وفضیلت سے آگاہی حاصل کر سکے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، ۲ / ۹۱۷-۹۱۸)