Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 191 ≫ Translation ≫ Tafsir
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(191)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ: وہ جواللہ کو یاد کرتے ہیں۔} یہاں عقلمند لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ہیں کون؟ اور ان کے چند اہم کام بیان فرمائے گئے ہیں۔
(1)…عقلمند لوگ کھڑے، بیٹھے اور بستروں پر لیٹے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ مولیٰ کریم کی یاد ہر وقت ان کے دلوں پر چھائی رہتی ہے۔
(2)…عقلمند لوگ کائنات میں غوروفکر کرتے ہیں ، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور کائنات کے دیگر عجائبات میں غور کرتے ہیں اور ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا ہے۔
(3)…کائنات میں غور وفکر کے بعد اللہ تعالیٰ کی عظمت ان پر آشکار ہوتی ہے اور ان کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی زبانیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کے ترانے پڑھتی ہیں۔
(4)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام چیزیں کاملُ الایمان لوگوں کے اوصاف ہیں ، ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہے ۔ ہمارے اَسلاف اللہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد میں بہت رَغبت رکھتے تھے، چنانچہ حضرت سری سقطی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت جرجانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پا س ستو دیکھے جس سے وہ بھوک مٹا لیتے تھے۔ میں نے کہا: آپ کھانا اور دوسری اشیا ء کیوں نہیں کھاتے ؟ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے چبانے اور یہ ستو کھا کر گزارہ کرنے میں نوے تسبیحات کا فرق پایا ہے، لہٰذا چالیس سال سے میں نے روٹی نہیں چبائی تا کہ ان تسبیحات کا وقت ضائع نہ ہو۔
حضرت جنید بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا معمول یہ تھا کہ آپ با زار جاتے اور اپنی دکان کھول کر اس کے آگےپردہ ڈال دیتے اور چار سو رکعت نفل ادا کر کے دکان بند کر کے گھر واپس آ جاتے ۔(مکاشفۃ القلوب، الباب الحادی عشر فی طاعۃ اللہ ومحبۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۳۸)
جس طرح کسی کی عظمت ، قدرت ، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غورو فکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت، وحدانیت اور ا س کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے،اس میں موجود تما م چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور ا س کے جلال و کبریائی کی مُظہِر ہیں اور ان میں تفکر اور تَدَبُّر کرنے سے خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق،زمین و آسمان کی بناوٹ ، زمین کی پیداوار،ہوا اور بارش، سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کا اختلاف وغیرہ بے شمار اَشیاء میں غور وفکر کرنے کی دعوت اورترغیب دی گئی تاکہ انسان ا ن میں غورو فکر کے ذریعے اپنے حقیقی رب عَزَّوَجَلَّ کو پہچانے ، صرف اسی کی عبادت بجا لائے اور ا س کے تمام احکام پر عمل کرے۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آسمان اپنے ستاروں ،سورج، چاند، ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔زمین کا مشاہدہ ا س کے پہاڑوں ،نہروں ،دریاؤں ،حیوانات،نَباتات اور ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے اورجو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں جیسے بادل،بارش،برف،گرج چمک، ٹوٹنے والے ستارے اور تیز ہوائیں۔یہ وہ اَجناس ہیں جو آسمانوں ،زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں ،پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی اَنواع ہیں ، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں ،ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں اور صفات ،ہَیئت اور ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔زمین و آسمان کے جمادات،نباتات،حیوانات،فلک اور ستاروں میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو ،دس ہوں یا ہزار ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور ا س کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب التفکر، بیان کیفیۃ التفکر فی خلق اللہ تعالٰی، ۵ / ۱۷۵)
فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غورو فکر کرنے اور ا س کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے کمال وجمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کاشکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو ا س سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے۔
امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اندھا وہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی تمام صَنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اوراس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غور و فکر نہ کرے،اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور ا س سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا،کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا ۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، پیدا کردن تفکر در عجایب خلق خدای تعالٰی، ۲ / ۹۱۰)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔آمین۔