banner image

Home ur Surah Al Imran ayat 198 Translation Tafsir

اٰلِ عِمْرَان

Al Imran

HR Background

لٰكِنِ  الَّذِیْنَ  اتَّقَوْا  رَبَّهُمْ  لَهُمْ  جَنّٰتٌ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَا  نُزُلًا  مِّنْ  عِنْدِ  اللّٰهِؕ-وَ  مَا  عِنْدَ  اللّٰهِ  خَیْرٌ  لِّلْاَبْرَارِ(198)

ترجمہ: کنزالایمان لیکن وہ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ان میں رہیں اللہ کی طرف کی مہمانی اور جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکوں کے لئے سب سے بھلا۔ ترجمہ: کنزالعرفان لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے (یہ) اللہ کی طرف سے مہمان نوازی کا سامان ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکوں کے لئے بہترین چیز ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَهُمْ  جَنّٰتٌ: ان کیلئے جنتیں ہیں۔ }کافروں کی دنیاوی ، عارضی اورفانی راحت و آرام کے ذکر کے بعد مسلمانوں کے آخرت کے دائمی، اَبدی راحت و آرام یعنی جنت کا بیان ہورہا ہے۔

دنیا کی راحتیں اور جنت کی ابدی نعمتیں کس کے لئے ہیں ؟:

            صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درِ رحمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطانِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بوریئے پر آرام فرما رہے ہیں ، سرِ اقدس کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں ناریل کے ریشے بھرے ہوئے ہیں اور جسم مبارک پر بوریئے کے نشانات نقش ہو گئے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رو پڑے۔ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے رونے کا سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ’’ یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیصر و کسریٰ تو عیش وآرام میں ہوں اور آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہو کر اس حالت میں۔ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب تبتغی مرضاۃ ازواجک۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۵۹، الحدیث: ۴۹۱۳)

            حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ایک دن سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت فاطمۃُ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہااونٹ کے بالوں سے بنا موٹا لباس پہنے چکی میں آٹا پیس رہی تھیں ، جب نَبِیُّوں کے سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان پر نظر پڑی تو آنکھوں سے سَیلِ اشک رواں ہو گیا ، رحمت عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا کی تنگی و سختی کا گھونٹ پی لوتاکہ جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفضیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۸۷)

            حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ پانی طلب فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہد کا پیالہ پیش کیا گیا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس پیالے کو اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’اگر میں اسے پی لوں تو اس کی مٹھاس چلی جائے گی لیکن ا س کا حساب (میرے ذمے ) باقی رہے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، پھر وہ پیالہ ایک شخص کو دے دیا اور ا س نے وہ شہد پی لیا۔ (اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، ۴ / ۱۶۷)

            حضرت ابن ابی ملیکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے سامنے کھانا رکھا ہوا تھا ، اس دوران ایک غلام نے آ کر عرض کی : حضرت عتبہ بن ابی فرقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوازے پر کھڑے ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں اند رآنے کی اجازت دی۔جب حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کھانے میں سے کچھ انہیں دیا۔ حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے کھایا تو وہ ایسا بد مزہ تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسے نگل نہ سکے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : اے امیر المؤمنین!رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا آپ کو حواری نامی کھانے میں رغبت ہے (تاکہ آپ کی بارگاہ میں وہ کھاناپیش کیا جائے) ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’کیا وہ کھانا ہر مسلمان کو مُیَسَّر ہے ؟ حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: خدا کی قسم! نہیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے عتبہ ! تم پر افسوس ہے ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں دُنیَوی زندگی میں مزیدار کھانا کھاؤں اور آسودگی کے ساتھ زندگی گزاروں۔(اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، ۴ / ۱۶۸)

            حضرت ابو ہریرہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے ، نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۲۴۴)

            حضرت سہل بن سعد ساعدی   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، حضور پُر نور   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جنت کی اتنی جگہ جس میں کَوڑا رکھ سکیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۲، الحدیث: ۳۲۵۰)