banner image

Home ur Surah Al Imran ayat 199 Translation Tafsir

اٰلِ عِمْرَان

Al Imran

HR Background

وَ  اِنَّ  مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ  لَمَنْ  یُّؤْمِنُ  بِاللّٰهِ  وَ  مَاۤ  اُنْزِلَ  اِلَیْكُمْ  وَ  مَاۤ  اُنْزِلَ  اِلَیْهِمْ  خٰشِعِیْنَ  لِلّٰهِۙ-لَا  یَشْتَرُوْنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰهِ  ثَمَنًا  قَلِیْلًاؕ-اُولٰٓىٕكَ  لَهُمْ  اَجْرُهُمْ  عِنْدَ  رَبِّهِمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  سَرِیْعُ  الْحِسَابِ(199)

ترجمہ: کنزالایمان اور بیشک کچھ کتابی ایسے ہیں کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر جو تمہاری طرف اترا اور جو ان کی طرف اترا ان کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے اللہ کی آیتوں کے بدلے ذلیل دام نہیں لیتے یہ وہ ہیں جن کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور بیشک کچھ اہلِ کتاب ایسے ہیں جو اللہ پر اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اُس پر اور جو اُن کی طرف نازل کیا گیا اُس پر اِس حال میں ایمان لاتے ہیں کہ ان کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں وہ اللہ کی آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہیں لیتے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اِنَّ  مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ: اور بیشک کچھ اہلِ کتاب ۔ } حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ آیت حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی، اُن کی وفات کے دن سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا ،چلو اور اپنے بھائی کی نماز ِ جنازہ پڑھو جس نے دوسرے ملک میں وفات پائی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بقیع شریف تشریف لے گئے اور حبشہ کی سرزمین آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے سامنے کی گئی اورحضرت نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جنازہ سامنے ہوگیا ۔اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چار تکبیروں کے ساتھ نماز ِ جنازہ پڑھی اور اس کے لئے اِستغفار فرمایا ۔ (سُبْحَانَ اللہ، کیا نظر ہے اور کیا شان ہے کہ سرزمینِ حبشہ مدینہ منورہ میں سامنے پیش کردی جاتی ہے۔ ) منافقین نے اِس پراعتراض کیا اور کہا کہ دیکھو ،حبشہ کے نصرانی پر نماز پڑھتے ہیں جس کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی دیکھا بھی نہیں اور وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین پر بھی نہ تھا ۔ اس پر اللہ  تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۹، ۱ / ۳۳۹)

            اور اُن کی شان میں فرمایا گیا کہ منافق جن کو عیسائی کہہ رہے ہیں حقیقت میں وہ مسلمان ہیں کیونکہ کچھ اہلِ کتاب ایسے ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اورپچھلی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل عاجزی و اِنکساری اور تواضُع و اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اوریہودی سرداروں کی طرح وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں بیچ کر ذلیل قیمت نہیں لیتے بلکہ سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ توان لوگوں کیلئے اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کا خزانہ ہے۔