Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 35 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(35)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ: جب عمران کی بیوی نے عرض کی۔ } عمران دو ہیں ایک عمران بن یَصْہُرْبن قاہِثْ بن لاوٰی بن یعقوب یہ تو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد ہیں اور دوسرے عمران بن ماثان یہ حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد ہیں ان دونوں عمرانوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو برس کا فرق ہے ،یہاں دوسرے عمران مراد ہیں ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۲۴۳،جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۴۰۰، ملتقطاً)
ان کی بیوی یعنی حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی والدہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذا ہے ۔یہاں آیت میں انہی کاواقعہ بیان ہورہا ہے ۔ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی تھی کہ اے اللہ! میں تیرے لئے نذر مانتی ہوں کہ میرے پیٹ میں جو اولاد ہے وہ خاص تیرے لئے وقف ہے ۔ تیری عبادت کے سوا دنیا کا کوئی کام اس کے متعلق نہ ہو اور بیتُ المقدس کی خدمت اس کے ذمہ ہو۔ علماء نے واقعہ اس طرح ذکر کیا ہے کہ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دونوں ہم زُلف تھے ۔فاقوذا کی دُختر اِیشاع حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی زوجہ تھیں اور یہ حضرت یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی والدہ ہیں اور ان کی بہن حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیوی تھیں اور یہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی والدہ ہیں۔ ایک زمانہ تک حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی یہاں تک کہ بڑھاپا آگیا اور مایوسی ہوگئی، یہ صالحین کا خاندان تھا اور یہ سب لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندے تھے۔ ایک روز حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے ایک درخت کے سایہ میں ایک چڑیا دیکھی جو اپنے بچہ کو بھرا رہی تھی یعنی دانہ کھلا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دل میں اولاد کا شوق پیدا ہوا اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کی کہ یارب ! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو مجھے بچہ دے تو میں اس کو بیت المقدس کا خادم بناؤں گی اور اس خدمت کے لیے حاضر کردوں گی ۔چنانچہ جب وہ حاملہ ہوئیں اور انہوں نے یہ نذر مان لی تو ان کے شوہر نے فرمایا: یہ تم نے کیا کیا ،اگر لڑکی ہوگی تو وہ اس قابل کہاں ہوگی؟اس زمانہ میں بیتُ المقدس کی خدمت کے لیے لڑکوں کودیا جاتا تھا اور لڑکیاں اپنے مخصوص معاملات ، زنانہ کمزوریوں اور مردوں کے ساتھ نہ رہ سکنے کی وجہ سے اس قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ اس لیے حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شدید فکر لاحق ہوئی ۔ حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے ہاں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت سے پہلے حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا انتقال ہو گیا تھا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۲۴۴)