Home ≫ ur ≫ Surah Al Infitar ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ(6)الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ(7)فِیْۤ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَﭤ(8)كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ(9)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ: اے انسان!۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اے ا نسان! تجھے کس چیز نے اپنے کرم والے رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا کہ تو نے اس کی نعمت اور کرم کے باوجود اس کا حق نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی جو تجھے عدم سے وجود میں لے کر آیا،پھر اس نے تمہارے اعضاء کو ٹھیک بنایا اور تجھے پکڑنے کے لئے ہاتھ،چلنے کے لئے پاؤں ،بولنے کے لئے زبان،دیکھنے کے لئے آنکھ اور سننے کے لئے کان عطا کئے، پھر ان اعضاء میں مناسبت رکھی کہ ایک ہاتھ یا پاؤں دوسرے ہاتھ یا پاؤں سے چھوٹایا لمبا نہیں ،پھر تمہیں لمبے قد والایا چھوٹے قدوالا، خوب صورت یا بد صورت،گورا یا کالا ،مرد یا عورت جس صورت میں چاہا تجھے جوڑدیا ،اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی ان کرم نوازیوں کودیکھ کر بھی ا س کی نافرمانی سے نہیں رکے بلکہ تم انصاف کے دن کو جھٹلانے لگے اور اعمال کی جزا ء ملنے کے دن کاانکار کرنے لگ گئے۔(مدارک ، الانفطار ، تحت الآیۃ : ۶-۹، ص۱۳۲۷، روح البیان، الانفطار، تحت الآیۃ: ۶-۹، ۱۰ / ۳۵۸-۳۶۰، خازن، الانفطار، تحت الآیۃ: ۶-۹، ۴ / ۳۵۸، جلالین، الانفطار، تحت الآیۃ: ۶-۹، ص۴۹۲، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اچھی جزا کی امید رکھنا بیوقوفی کی علامت ہے:
ان آیات سے معلوم ہو اکہ اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ کرم فرمانے والا ہے لیکن اس کے کرم کو پیش ِنظر رکھ کر اس کی نافرمانی کرنے کی جرأت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کی پکڑ اور ا س کے عذاب کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اس کی نافرمانی سے ہر دم بچتے رہنا چاہئے۔اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو گناہ کر نے کے بعد ا س سے سچی توبہ کرنے کی بجائے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ بڑابخشنے والا ہے ،وہ معاف کردے گا کوئی بات نہیں ۔ان کے لئے درج ذیل دو اَحادیث میں بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ
(1)… حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سمجھ دار شخص وہ ہے جو (دنیا میں ہی) اپنا محاسبہ کر لے اور آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرے اور وہ شخص احمق ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللّٰہ تعالیٰ سے آخرت کے انعام کی امید رکھے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔۔۔ الخ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اللّٰہ تعالیٰ کے حِلم اور بُردباری سے دھوکے میں نہ پڑ جائے ،بے شک جنت اور دوزخ تمہارے جوتے کے تَسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔( الترغیب والترہیب، کتاب التوبۃ والزہد، الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۸، الحدیث: ۴۷۵۷)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی نافرمانی سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔