banner image

Home ur Surah Al Insan ayat 29 Translation Tafsir

اَلدَّهْر (اَلْاِنْسَان)

Al Insan

HR Background

اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌۚ-فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(29)وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(30)یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-وَ الظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(31)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک یہ نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ لے۔ اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ اللہ چاہے بے شک وہ علم و حکمت والا ہے ۔ اپنی رحمت میں لیتا ہے جسے چاہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک یہ ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے ۔ اورتم کچھ نہیں چاہتے مگریہ کہ اللہ چاہے بیشک اللہ خوب علم والا،بڑا حکمت والا ہے۔ وہ اپنی رحمت میں جسے چاہتا ہے داخل فرماتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ ایک نصیحت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک یہ سورت مخلوق کے لئے نصیحت ہے تو جو چاہے دنیا میں  اپنی ذات کے لئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر کے اور اس کے رسول کی پیروی کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راہ اختیار کرے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)

{وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: اورتم کچھ نہیں  چاہتے مگر یہ کہ اللّٰہ  چاہے۔} ارشاد فرمایا کہ تم کچھ نہیں  چاہتے مگر تب ہی کچھ ہوتا ہے جب کہ اللّٰہ تعالیٰ چاہے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مَشِیَّت سے ہوتاہے ،بیشک وہ اپنی مخلوق کے اَحوال جانتا ہے اور انہیں  پیدا کرنے میں  حکمت والا ہے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۳۴۲)

آیت ’’وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… انسان پتھر کی طرح بے اختیار نہیں  بلکہ اسے اختیاراور ارادہ ملا ہے ۔

(2)… انسان اپنے ارادے میں  بالکل مُستقل اور اللّٰہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں  بلکہ اس کا ارادہ اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہے، لہٰذا انسان مختارِ مُطْلَق نہیں ،اسی عقیدے پر ایمان کا مدار ہے۔

{یُدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖ: وہ اپنی رحمت میں  جسے چاہتا ہے داخل فرماتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اپنے فضل و احسان سے ایمان عطا فرما کر اپنی جنت میں  داخل فرماتا ہے اور کافروں  کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ ظالم اس لئے ہیں  کہ انہوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں  وغیرہ کی عبادت کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کیا ہے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)