Home ≫ ur ≫ Surah Al Insan ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا(7)
تفسیر: صراط الجنان
{یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ: وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں ۔} اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا ثواب بیان فرمانے کے بعداب ان کے وہ اعمال ذکر فرمائے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے انہیں یہ ثواب حاصل ہوا۔
پہلا عمل :اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے طاعت و عبادت اور شریعت کے واجبات پر عمل کرتے ہیں حتّٰی کہ وہ عبادات جو واجب نہیں لیکن مَنّت مان کر انہیں اپنے اوپر واجب کر لیا توانہیں بھی ادا کرتے ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۳۹، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۳۰۶، ملتقطاً)
مَنَّت کی دو صورتیں :
یاد رہے ،منت کی ایک صورت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے اسے کسی شرط کے ساتھ اپنے اوپر واجب کرلے۔اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ایسے کام کی شرط لگائی جس کے ہو جانے کی خواہش ہے مثلاً یوں کہا کہ اگر میرا مریض اچھا ہو گیایا میرا مسافر خَیْرِیَّت سے واپس آگیا تو میں راہِ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعت نماز پڑھوں گا یا اتنے روزے رکھوں گا،تو اس صورت میں جب وہ کام ہو گیا تو اتنی مقدار صدقہ کرنا اور اتنی رکعت نماز پڑھنا اور اتنے روزے رکھنا ضروری ہے ،اس میں ایسانہیں ہو سکتا کہ وہ کام نہ کرے اورمَنت کا کَفّارہ دیدے، اور اگر منت میں ایسے کام کی شرط لگائی ہے کہ جس کا ہونا نہیں چاہتا مثلاً یوں کہا کہ اگر میں تم سے بات کروں یا تمہارے گھر آؤں تو مجھ پر اتنے روزے ہیں ،اس صورت میں اگر شرط پائی گئی یعنی اس سے بات کر لی یا اس کے گھر چلاگیا تو اب اسے اختیار ہے کہ جتنے روزے کہے تھے وہ رکھ لے یا کَفّارہ دیدے۔منت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شرط کا ذکر کئے بغیر اپنے اوپر وہ چیز واجب کر لے جو واجب نہیں ہے مثلاً یوں کہے کہ میں نے اتنے روزوں کی منت مانی یا اس طرح کہے میں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنے روزے رکھوں گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی وہ کرنا ضرور ی ہے اس کے بدلے کفارہ نہیں دے سکتا۔( بہار شریعت، حصہ نہم، منت کا بیان، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵، ملخصاً)
نوٹ: مَنَّت کے مسائل کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت، جلد نمبر 2 حصہ 9 سے’’ منت کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
دوسرا عمل:اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی شدت اور سختی پھیلی ہوئی ہوگی۔
حضرت قتادہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس دن کی شدت اس قدر پھیلی ہوئی ہو گی کہ آسمان پھٹ جائیں گے ، ستارے گر پڑیں گے، چاند سورج بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اورزمین پر کوئی عمارت باقی نہ رہے گی۔( جمل، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۸۷)