Home ≫ ur ≫ Surah Al Inshiqaq ≫ ayat 20 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍﭤ(19)فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(20)
تفسیر: صراط الجنان
{لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ: ضرور تم ایک حالت کے بعد دوسری حالت کی طرف چڑھو گے۔} یہ اس سے اوپر آیات میں مذکور قَسموں کا جواب ہے ۔بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں عام انسانوں سے خطاب ہے اور ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھنے سے مراد یہ ہے کہ اے لوگو! تمہیں ایک حال کے بعد دوسرا حال پیش آئے گا۔ان احوال کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ پہلے موت کی سختیوں اورہَولْناکیوں میں مبتلا ہونا، پھر مرنے کے بعد اُٹھنا اور پھرحساب کی جگہ میں پیش ہونا مراد ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے حالات میں مختلف درجے ہیں کہ ایک وقت وہ دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے، پھراس کا دودھ چھوٹتا ہے، پھراس کے لڑکپن کا زمانہ آتا ہے ،پھر وہ جوان ہوتا ہے، پھراس کی جوانی ڈھلتی ہے اور پھر وہ بوڑھا ہوجاتا ہے ۔
بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں خاص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے خطاب ہے اور ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھنے سے مراد یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف چڑھیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ ایسا کیا کہ آپ معراج کی رات ایک آسمان پر تشریف لے گئے ،پھر دوسرے آسمان پر اسی طرح درجہ بدرجہ اور مرتبہ بمرتبہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی مَنازل میں پہنچے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کاحا ل بیان فرمایا گیا ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ آپ کفار کی سرکشی اور ان کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہوں، آپ کو مشرکین پر فتح اور کامیابی حاصل ہوگی اور آپ کا انجام بہت بہتر ہوگا۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۶۴)
{فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ: توانہیں کیا ہواکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔} یعنی اس سے پہلی آیات میں جن چیزوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی یہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ کر کسی عقلمند انسان کے لئے اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو اب کفار کے پاس اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں کیا عذر باقی رہ گیا ہے اور وہ دلائل ظاہر ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ پر کیوں ایمان نہیں لاتے۔( جلالین مع صاوی، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۲۳۳۶-۲۳۳۷)