Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(1)
تفسیر: صراط الجنان
{سُبْحٰنَ: پاک ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ’’سُبْحَانَ اللہ ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہر بری چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح والذکر، تفسیر سبحان اللہ، ۲ / ۱۷۷، الحدیث: ۱۸۹۱)
سُبْحَانَ اللہ کے3 فضائل:
اس آیت کی ابتدا میں لفظ ’’ سُبْحٰنَ‘‘ کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘کے 3فضائل درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ پڑھا ،تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کی مثل ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۱۹، الحدیث: ۶۴۰۵)
(2)…حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ’’سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہا تو اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگا دیا جاتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۵۹-باب، ۵ / ۲۸۶، الحدیث: ۳۴۷۵)
(3)…حضرت ابوذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَاللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کون سا کلام اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ کلام جسے اللہتعالیٰ نے فرشتوں کے لئے پسند فرما ہے (اور وہ یہ ہے) ’’سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ‘‘(مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل۔۔۔الخ، احبّ الکلام الی اللہ سبحان ربّی وبحمدہ،۲ / ۱۷۶، الحدیث:۱۸۸۹)
اسمِ الٰہی کی تجلی کا اثر:
یاد رہے کہ ہر اسمِ الٰہی کی تجلی عامل پر پڑتی ہے یعنی جو جس اسمِ الٰہی کا وظیفہ کرتا ہے اُس میں اُسی کا اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ جو ’’یَا سُبْحَانُ‘‘کا وظیفہ کرے تواللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے پاک فرمائے گا ۔ جو’’یَا غَنِیُّ ‘‘ کا وظیفہ پڑھے تو وہ خود غنی اور مالدار ہوجائے گا، اسی طرح جو یَاعَفُوُّ ، یَا حَلِیْمُ کا وظیفہ کرے تو اس میں یہی صفات پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اسی مناسبت سے یہاں ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو بکر بن زیَّات رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :حضور! آج صبح ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور میں سب سے پہلے آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس یہ خبر لے کر آیا ہوں تاکہ آپ کی برکت سے ہمارے گھرمیں خیر نازل ہو ۔ حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے حفظ واَمان میں رکھے ۔یہاں بیٹھ جاؤ اورسو مرتبہ یہ الفاظ کہو ’’مَا شَاءَ اللہ کَانَ‘‘یعنی اللہتعالیٰ نے جو چاہا وہی ہوا۔ اس نے سو مرتبہ یہ الفاظ دہرا لئے توآپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’ دوبارہ یہی الفاظ کہو ۔ اس نے سو مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرائے۔ آپ نے فرمایا ’’پھر وہی الفاظ دہراؤ۔ اس طرح پانچ مرتبہ اسے (وہ الفاظ دہرانے کا ) حکم دیا ۔ اتنے میں ایک وزیر کی والدہ کاخادم ایک خط اور تھیلی لے کر حاضر ہوا اور کہا:’ ’اے معروف کرخی ! رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ،اُمِّ جعفر آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے یہ تھیلی آپ کی خدمت میں بھجوائی ہے اورکہا ہے کہ آپ غُرباء و مساکین میں یہ رقم تقسیم فرما دیں ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاصد سے فرمایا ’’ رقم کی تھیلی اس شخص کو دے دو، اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ قاصد نے کہا: یہ 500 درہم ہیں ، کیا سب اسے دے دوں ؟آپ نے فرمایا ’’ہاں !ساری رقم اسے دے دو، اس نے پانچ سو مرتبہ ’’مَا شَاءَ اللہ کَانَ‘‘ کہا تھا۔ پھر اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ یہ پانچ سو درہم تمہیں مبارک ہوں ، اگر اس سے زیادہ مرتبہ کہتے تو ہم بھی اتنی ہی مقدار مزید بڑھا دیتے ۔( جاؤ !یہ رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو)۔( عیون الحکایات، الحکایۃ التاسعۃ بعد الثلاث مائۃ، ص۲۷۷)
{سُبْحٰنَ الَّذِیْ:پاک ہے وہ ذات۔} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر کمزوری، عیب اور نقص سے خداوند ِ قدوس کی عظیم ذات پاک ہے جس نے اپنے خاص بندے یعنی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شبِ معراج رات کے کچھ حصے میں مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی حالانکہ مسجد ِ اقصیٰ مکۂ مکرمہ سے تیس دن سے زیادہ کی مسافت پر ہے، وہ مسجد ِاقصیٰ جس کے اردگرد ہم نے دینی و دُنْیَوی برکتیں رکھی ہیں اور سیر کرانے کی حکمت یہ تھی کہ اللہعَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی عظمت اور قدرت کی عظیم نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ روایت ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شب ِمعراج درجاتِ عالیہ اور مَراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تواللہعَزَّوَجَلَّ نے خطاب فرمایا ، اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا ؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کی :اس لئے کہ تو نے مجھے عَبْدِیَّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۳-۱۵۴، ملخصاً)
{اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ: اپنے بندے کو سیر کرائی۔} آیت کے اس حصے میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معراج شریف کا تذکرہ ہے ۔ معراج شریف نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک جلیل معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ کمالِ قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی کو مُیَسَّر نہیں ۔
معراج شریف سے متعلق 3باتیں :
یہاں معراج شریف سے متعلق تین باتیں قابلِ ذکر ہیں :
(1)…نبوت کے بارہویں سال سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ معراج سے نوازے گئے ، البتہ مہینے کے بارے میں اختلاف ہے مگر زیادہ مشہور یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی۔
(2)… مکۂ مکرمہ سے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیتُ المقدس تک رات کے چھوٹے سے حصہ میں تشریف لے جانا نصِ قرآنی سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور مَنازلِ قرب میں پہنچنا اَحادیث ِصحیحہ مُعتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حدِ تَواتُر کے قریب پہنچ گئی ہیں ، اس کا منکر گمراہ ہے۔
(3)…معراج شریف بحالت ِبیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی، یہی جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحابِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کثیر جماعتیں اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیل القدر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی کے معتقد ہیں ، آیات و اَحادیث سے بھی یہی سمجھ آتا ہے اور جہاں تک بیچارے فلسفیوں کا تعلق ہے جو علّت و مَعلول کے چکر میں پھنس کر عجیب و غریب شکوک و شُبہات کا شکار ہیں تو ان کے فاسد اَوہام مَحض باطل ہیں ، قدرتِ الٰہی کے معتقد کے سامنے وہ تمام شبہات محض بے حقیقت ہیں ۔( تفسیرات احمدیہ، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۰۵، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۰۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ:۱،ص۵۲۵، ملتقطاً)
سفر ِمعراج کا خلاصہ:
معراج شریف کے بارے میں سینکڑوں اَحادیث ہیں جن کا ایک مختصر خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ معراج کی رات حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج کی خوشخبری سنائی اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقدس سینہ کھول کر اسے آبِ زمزم سے دھویا، پھر اسے حکمت و ایمان سے بھر دیا۔ اس کے بعدتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں براق پیش کی اور انتہائی اِکرام اور احترام کے ساتھ اس پر سوار کرکے مسجد ِاقصیٰ کی طرف لے گئے۔ بیتُ المقدس میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی ۔پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے باری باری تمام آسمانوں کے دروازے کھلوائے، پہلے آسمان پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضور ِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوئے ، انہوں نے حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و تکریم کی اور تشریف آوری کی مبارک بادیں دیں ،حتّٰی کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرماتے اور وہاں کے عجائبات دیکھتے ہوئے تمام مُقَرَّبین کی آخری منزل سِدرۃُ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اس جگہ سے آگے بڑھنے کی چونکہ کسی مقرب فرشتے کو بھی مجال نہیں ہے ا س لئے حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آگے ساتھ جانے سے معذرت کرکے وہیں رہ گئے ، پھر مقامِ قربِ خاص میں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ترقیاں فرمائیں اور اس قربِ اعلیٰ میں پہنچے کہ جس کے تَصَوُّر تک مخلوق کے اَفکار و خیالات بھی پرواز سے عاجز ہیں ۔ وہاں رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر خاص رحمت و کرم ہوا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انعاماتِ الٰہیہ اور مخصوص نعمتوں سے سرفراز فرمائے گئے، زمین و آسمان کی بادشاہت اور ان سے افضل و برتر علوم پائے ۔ اُمت کے لئے نمازیں فرض ہوئیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض گناہگاروں کی شفاعت فرمائی، جنت و دوزخ کی سیر کی اور پھر دنیا میں اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے۔ جب سَرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس واقعے کی خبریں دیں تو کفار نے اس پر بہت واویلا کیا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیتُ المقدس کی عمارت کا حال اور ملک ِشام جانے والے قافلوں کی کَیفِیَّتیں دریافت کرنے لگ گئے ۔حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں سب کچھ بتا دیا اور قافلوں کے جو اَحوال سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائے تھے ، قافلوں کے آنے پر اُن سب کی تصدیق ہوئی۔
معراجِ حبیب اور معراجِ کلیم میں فرق:
اللہتعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو معراج عطا فرمائی اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو معراج عطا فرمائی، یہاں اِن میں فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی معراج درخت ِدنیا پر ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ‘‘(قصص:۳۰)
برکت والی جگہ میں میدان کے دائیں کنارے سے ایک درخت سے انہیں ندا کی گئی۔(ت)
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی معراج سِدرۃُ المنتہیٰ وفردوسِ اعلیٰ تک بیان فرمائی(چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(۱۴)عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى‘‘(النجم:۱۴،۱۵)
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔(ت)( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۸۲)
مزید فرماتے ہیں :کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم پر حجاب ِنار سے تجلی ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا‘‘(نمل:۸)
پھر موسیٰ آگ کے پاس آئے تو (انہیں ) ندا کی گئی کہ اُس (موسیٰ) کو جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے اور جو اس (آگ) کے آس پاس(فرشتے)ہیں انہیں برکت دی گئی۔(ت)
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر جلوۂ نور سے تجلی ہوئی اوروہ بھی غایت تفخیم وتعظیم کیلئے بَالفاظِ اِبہام بیان فرمائی گئی (کہ)
’’ اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰى‘‘ (نجم:۱۶) جب چھا گیا سدرہ پر جو کچھ چھایا۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۸۲-۱۸۳)
(اللہتعالیٰ نے) کلیمُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالتَّسْلِیْم سے طور پر کلام کیا اور اسے سب پر ظاہر فرما دیا (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِـعْ لِمَا یُوْحٰى(۱۳)اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘(طٰہٰ:۱۳،۱۴) الٰی اٰخر الاٰیات۔(آیات کے آخر تک)
اور میں نے تجھے پسند کیا تواب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔بیشک میں ہی اللہہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔(ت)
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے فوق السَّمٰوٰت مُکالَمہ فرمایا اور سب سے چھپایا(چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘ (النجم:۱۰)
پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔(ت)( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۹-۱۸۰)
{اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا:مسجد ِاقصیٰ تک ۔} سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرانے میں ایک حکمت یہ ہے کہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شرف اور فضیلت ظاہر ہو جائے کیونکہ رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی جگہ میں انہیں امام بن کر نماز پڑھائی اور جسے گھر والوں پر مُقَدّم کیا جائے اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ و ہ سلطان ہوتا ہے کیونکہ سلطان کو اپنے علاوہ لوگوں پر مُطْلَقاً تَقَدُّم حاصل ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ حشر کے دن مخلوق اسی سرزمین میں جمع ہو گی اس لئے یہ جگہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کی برکات سے نہال ہو جائے تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر محشر میں وُقوف آسان ہو۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۱۰۶) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ پہلی حکمت کے حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں :
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرعیاں ہوں معنی ٔاول آخر کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
{اَلَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ: جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں یہ کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کے اترنے کی جگہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت گاہ اور ان کی قیام گاہ بنی اور ان کی عبادت کا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں یہ کہ وہاں قرب و جوار میں نہروں اور درختوں کی کثرت تھی جس سے وہ زمین سرسبز و شاداب ہے اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ص۶۱۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۴، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۲۵، ملتقطاً)
{لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا: تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔}آیت کے اس حصے میں معراج شریف کی ایک حکمت بیان کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رات کے کچھ حصے میں مسجد ِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی تاکہ ہم انہیں اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :بے شک اس رات نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا، انہیں نماز پڑھائی اور بڑی عظیم نشانیاں دیکھیں ۔ مزید فرماتے ہیں : اس آیت میں ’’مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ ہیں ،جن کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نشانیاں دکھائیں جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں ۔( انعام:۷۵) اس آیت کے ظاہر سے ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فضیلت حاصل ہے ، حالانکہ ایسا نہیں اور نہ ہی کوئی ان کی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پراِس اعتبار سے فضیلت کا قائل ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت بھی اللہ تعالیٰ کی (تمام نہیں بلکہ)بعض ہی نشانیاں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی(دوسری) نشانیاں اِس(آسمان و زمین کی بادشاہت) سے کہیں زیادہ اور بڑھ کرہیں اور (اسی اعتبار سے ہم کہتے ہیں کہ)اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نشانیاں و عجائبات دکھائے وہ زمین و آسمان کی بادشاہت سے بڑھ کر ہیں ، اس بیان سے ظاہر ہو گیا کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت حاصل ہے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۴ملخصاً)۔([1])
[1] … معراج شریف سے متعلق مزید
معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’فیضان معراج‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ
فرمائیں ۔