ترجمہ: کنزالایمان
اور میرے بندوں سے فرماؤ وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو بیشک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے حبیب! آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو ۔ بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے ۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ: اور آپ
فرمادیں ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین
مسلمانوںکے ساتھ بدکلامیاںکرتے اور انہیںایذائیںدیتے تھے، انہوںنے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوںکو بتایا گیا کہ وہ کفار کی جاہلانہ باتوںکا ویسا ہی جواب نہ دیںبلکہ صبر کریں اور انہیںصرف یہ دعا دیدیا کریں یَہْدِیْکُمُ اللّٰہ(اللّٰہ تمہیںہدایت دے۔) یہ حکم
یعنی بہرحال صرف صبر ہی کرنا ، جہاد کے حکم سے پہلے تھا ، بعد میںمنسوخ ہو گیا اور ارشاد فرمایا گیا ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ
اغْلُظْ عَلَیْهِمْ(اے غیب کی خبریںدینے والے نبی! کافروںاور منافقوںسے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو)‘‘( توبہ :۷۳)اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق
میںنازل ہوئی ایک کافر نے اُن کی شان
میںبیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا ، اللّٰہ تعالیٰ نے انہیںصبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا۔( خازن، الاسراء،
تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۷۷، خزائن العرفان، بنی اسرائیل،
تحت الآیۃ: ۵۳، ملتقطاً)
بہرحال آیت میںفرمایا گیا
کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ایمان والوںسے فرمادیںکہ وہ کافروںسے وہ بات کیا
کریںجو نرم ہو یا پاکیزہ ہو، ادب اور
تہذیب کی ہو، ارشاد و ہدایت کی ہو حتّٰی کہ کفار اگر بے ہودگی کریںتو اُن کا جواب اُنہیںکے انداز میںنہ دیا جائے۔ فی زمانہ جہاد کا حکم موجود ہے لیکن وہ حکومت کے انتظام سے
ہوتا ہے، یہ نہیںکہ اب کوئی کافر کسی
مسلمان سے بدکلامی کرے تو یہ اس سے جہاد و قتال شروع کردے بلکہ اب اگر ایسا ہو تو
بھی قانونی کاروائی ہی کی جاسکتی ہے۔ ہاںکافر قوم مسلمانوںسے عمومی رویہ
یہ بنالے اور اب سلطنت جہاد کا فیصلہ کرے تو وہ جدا
حکم ہے۔ اور انفرادی طور پر تو کفار کی بداَخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا اب بھی
سنت ہے۔ ہمیںحکم ہے کہ دلیل توقویدو مگر بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالو ۔ فی زمانہ اس حکم
پر عمل کرنے کی سخت حاجت ہے کیونکہ ہمارے ہاںدلیل سے پہلے گولی اور گالی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ آیت کے آخری
حصے میںبتادیا کہ بدتہذیبی اور بدتمیزی
شیطان کے ہتھیار ہیںاور انکے ذریعے وہ تمہیںغصہ
دلواتا اور بھڑکاتا ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دو ، جس سے لڑائی فساد کی نوبت
آجائے۔ یہ شیطان کی انسان سے دشمنی ہے اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
سورت کا تعارف
سورۂ بنی اسرائیل کا
تعارف
مقامِ نزول:
حضرت قتادہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ سورت ’’وَ اِنْ كَادُوْا
لَیَفْتِنُوْنَكَ‘‘
سے لے کر’’نَصِیْرًا‘‘تک آٹھ آیتوں کے علاوہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الاسراء،۳ / ۱۵۳)علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جَزم کیا(یعنی یقین کے ساتھ لکھا) ہے کہ پوری سورت ہی مکۂ
مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔(بیضاوی مع حاشیۃ الشہاب،
سورۃ بنی اسرائیل،۶ / ۳، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 12 رکوع اور
111 آیتیں ہیں ۔
سورۂ بنی اسرائیل کے
اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ:
اس سورۂ مبارکہ کے چند
نام ہیں :
(1)…سورۂ اِسراء۔ اسراء
کا معنی ہے رات کوجانا، اور اس سورت کی پہلی آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے رات کے مختصر حصے میں
مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس جانے کاذکر ہے اس مناسبت سے اسے’’ سورۂ اِسراء ‘‘ کہتے
ہیں ۔
(2)…سورۂ سبحان۔ سبحان
کا معنی ہے پاک ہونا، اور اس سور ت کی ابتداء لفظِ ’’سبحان ‘‘ سے کی گئی اس مناسبت
سے اسے’’ سورۂ سبحان ‘‘کہتے ہیں ۔
(3)…بنی اسرائیل۔ اسرائیل
کا معنی ہے اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ، یہ حضرت
یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا لقب ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کو ’’بنی
اسرائیل ‘‘کہتے ہیں ، اس سورت میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کے وہ
اَحوال بیان کئے گئے ہیں جو دیگر سورتوں میں بیان نہیں ہوئے، اس مناسبت سے اس
سورت کو’’بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں اور یہی اس کا مشہور نام ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل کے
فضائل:
اس سورت کے فضائل پر
مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں :
(1) …حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف اور
سورۂ مریم فصاحت و بلاغت میں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ایک عرصہ ہوا کہ
میں نے انہیں زبانی یاد کر لیا تھا۔( بخاری، کتاب التفسیر،
سورۃ بنی اسرائیل،
۳ / ۲۵۸، الحدیث: ۴۷۰۸)
(2) …حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اس وقت تک اپنے بستر پر
نیند نہیں فرماتے تھے جب تک سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمر کی تلاوت نہ کر لیں
۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۱-باب،
۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۲۹۲۹)
مضامین
سورۂ بنی
اسرائیل کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں دینِ اسلام کے عقائد جیسے توحید، رسالت، مرنے کے
بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اعمال کی جزا اور سزا ملنے پر زور
دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مشرکین کے کثیر شُبہات کا اِزالہ کیا گیا ہے۔ اس
کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے
گئے ہیں ۔
(1) …اس کی پہلی آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم معجزے معراج کا ایک حصہ بیان کیا گیا ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے مختصر حصے میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس تشریف لے گئے اور یہمعجزہ اللّٰہ تعالیٰ
کی قدرت کی اور بارگاہِ الٰہی میں نبی
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی عزت و تکریم کی روشن ترین دلیل ہے۔
(2) …بنی اسرائیل کے مُفَصّل حالات بیان کئے گئے۔
(3) … یہ بیان کیاگیا ہے کہ جو نیک اعمال کرے اور سیدھی راہ پر آئے اس
میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور جو برے
اعمال کرے اور گمراہی کا راستہ اختیار کرے اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
(4) … یہ بیان کیا گیا ہے کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں (1) نیک نیت۔
(2) عمل کو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔ (3) ایمان۔
(5) …اجتماعی زندگی گزارنے کے بہترین اصول بیان کئے گئے ہیں جیسے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے
بارے میں دیگر اَحکام بیان کئے گئے ۔ فضول
خرچی کرنے سے منع کیا گیا اور مِیانہ رَوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ تنگدستی
کے خوف سے اولاد کو قتل کرنے، کسی کو ناحق قتل کرنے، زنا کرنے اور یتیم کا مال
ناحق کھانے سے منع کیا گیا ۔ ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور زمین پر اِترا کر نہ چلنے کا
حکم دیاگیا۔
(6) …قرآنِ پاک نازل کرنے کے مَقاصد بیان کئے گئے۔
(7) … حضرت آد م عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنے والا واقعہ بیان کیا گیا۔
(8) …قرآنِ پاک کے بے مثل ہونے کو بیان کیاگیا۔
(9)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعے کا کچھ حصہ بیان کیا گیا۔
(10)…قرآنِ پاک کو تھوڑ ا تھوڑا کر کے نازل کرنے کی حکمت بیان کی گئی ۔
مناسبت
سورۂ نحل
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ بنی اسرائیل کی اپنے سے ماقبل سورت ’’نحل‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت
یہ ہے کہ سورۂ نحل کے آخر میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار ومشرکین کی طرف سے
پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کا
حکم دیا اور سورۂ بنی اسرائیل کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کو بیان فرمایا ۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں میں انسان پر اللّٰہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسری مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ نحل میں بیان کیا گیا کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمایاہے اور سورۂ بنی اسرائیل
میں قرآنِ پاک نازل
کرنے کے مقاصد بیان کئے گئے۔