Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 55 ≫ Translation ≫ Tafsir
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْؕ-اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْؕ-وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا(54)وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(55)
تفسیر: صراط الجنان
{رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ:تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، وہ چاہے تو اے کافرو! تمہیں توبہ اور ایمان کی توفیق عطا فرماکر تم پر رحم فرمائے اور چاہے تو حالت ِ کفر میں باقی رکھ کر عذاب دے۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا کہ ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ ان کے اعمال کے ذمہ دار ہوں بلکہ آپ صرف مُبَلِّغ بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۱۷۸، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۶۲۶، ملتقطاً)
{وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ: اور تمہارا رب خوب جانتا ہے۔} یعنی تمہارا رب آسمان و زمین میں موجود ساری مخلوق کے سب اَحوال کوجانتا ہے اور اس بات کو بھی کہ کون کس لائق ہے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸) یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کو دوسروں پر مخصوص فضائل کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خلیل بنانا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلیم اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حبیب بنایا بلکہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے شمار اُمور میں فضیلتِ تامہ عطا فرمائی ۔
{وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا:ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔} زبور کتابِ الٰہی ہے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی ۔ اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں ، سب میں دعا اور اللّٰہ تعالیٰ کی ثنا اور اس کی تَحمید وتَمجید ہے ، نہ اس میں حلال و حرام کا بیان، نہ فرائض نہ حدود و اَحکام۔ اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام لے کر ذکر فرمایا گیا ۔ مفسرین نے اس کی چند وجوہات بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں اللّٰہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی پھر ارشاد کیا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا کی باوجود یہ کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے ساتھ ملک بھی عطا کیا تھا لیکن اس کا ذکر نہ فرمایا، اس میں تنبیہ ہے کہ آیت میں جس فضیلت کا ذکر ہے وہ فضیلت ِعلم ہے نہ کہ فضیلت ِملک و مال۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے زبور میں فرمایا ہے کہ محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں اور اُن کی اُمت خیر الامم، اسی سبب سے آیت میں حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور زبور کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہود کا گمان تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد کوئی نبی نہیں اور توریت کے بعد کوئی کتاب نہیں ،اس آیت میں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا فرمانے کا ذکر کرکے یہود کی تکذیب کردی گئی اور اُن کے دعوے کا بُطلان ظاہر فرما دیا گیا۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸) الغرض یہ آیت سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلتِ کُبریٰ پر دلالت کرتی ہے ۔
فارسی کا ایک قطعہ ہے:
ای و صفِ تو در کتابِ موسیٰ وے نعتِ تو در زبورِ داؤد
مقصود توئی زِ آفرینش باقی بہ طفیلِ تُست موجود
اے وہ ذات جس کی شان موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب میں موجود ہے اور جس کی نعت حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبور میں بھی ہے۔ مخلوق کی پیدائش میں اصلِ مقصودآپ کی ذات ہے اور باقی ساری مخلوق آپ کے طفیل ہے۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۵ / ۱۷۴)