ترجمہ: کنزالایمان
وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ مقبول بندے جن کی یہ کافر عبادت کرتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے ۔وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ: وہ جنہیںیہ پوجتے ہیں ۔} کفارکے بہت سے گروہ تھے۔ کوئی بتوںاور دیوی ، دیوتاؤںکو پوجتا تھا
اور کوئی فرشتوںکو، یونہی عیسائی حضرت
عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے
تھے اور یہودیوںکا ایک گروہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ، یونہی
بہت سے لوگ ایسے جنوںکو پوجتے تھے جو
اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کے پوجنے
والوںکو خبر نہ تھی تو اللّٰہ تعالیٰ
نے یہ آیت نازل فرمائی اور اُن لوگوںکوشرم دلائی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جن مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کو یہ لوگ پوجتے ہیںوہ تو خود اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیںکہ ان میںکون زیادہ مقرب ہے تاکہ جو سب سے زیادہ
مقرب ہو اس کو وسیلہ بنائیںتو جب یہ
مقربین بھی بارگاہِ الٰہی تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیںاور رحمت ِالٰہی کی امید رکھتے ہیںاور عذاب ِ الٰہی سے ڈرتے ہیںتو کافر انہیںکس طرح معبود سمجھتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۷۸، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب بندوںکو اس
کی بارگاہ میںوسیلہ بنانا جائز ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مقرب
بندوںکو بارگاہِ الٰہی میںوسیلہ بنانا جائز اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوںکا طریقہ ہے۔ آیت میںوسیلہ بنانے کا جوازبیان کیا گیا ہے اور شرک کا
رد کیا گیا ہے۔ وسیلہ ماننے اور خدا ماننے میںزمین و آسمان کا فرق ہے، جو وسیلے کو شرک کہے وہ اس آیت کے مطابق مَعَاذَاللّٰہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی
شرک کا مُرتکبقرار دیتا ہے۔ اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کائنات کا سب سے بڑا وسیلہ ہیںکہ بارگاہِ الٰہی میںسب سے مقرب
وہی ہیںتو بقیہ سب انہیںکو وسیلہ بناتے ہیںاور اسی لئے میدانِ قیامت میںسب لوگ حضور
اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میںہی جمع ہوکر حاضری دیںگے اور
بارگاہِ الٰہی میںسفارش کروائیں گے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِاللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میںعرض
کرتے ہیں :
ہم ہیں اُن کے وہ
ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت
اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں
بنایا انھیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترا
رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ
نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو
لجانا کیا ہے
سورت کا تعارف
سورۂ بنی اسرائیل کا
تعارف
مقامِ نزول:
حضرت قتادہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ سورت ’’وَ اِنْ كَادُوْا
لَیَفْتِنُوْنَكَ‘‘
سے لے کر’’نَصِیْرًا‘‘تک آٹھ آیتوں کے علاوہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الاسراء،۳ / ۱۵۳)علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جَزم کیا(یعنی یقین کے ساتھ لکھا) ہے کہ پوری سورت ہی مکۂ
مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔(بیضاوی مع حاشیۃ الشہاب،
سورۃ بنی اسرائیل،۶ / ۳، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 12 رکوع اور
111 آیتیں ہیں ۔
سورۂ بنی اسرائیل کے
اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ:
اس سورۂ مبارکہ کے چند
نام ہیں :
(1)…سورۂ اِسراء۔ اسراء
کا معنی ہے رات کوجانا، اور اس سورت کی پہلی آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے رات کے مختصر حصے میں
مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس جانے کاذکر ہے اس مناسبت سے اسے’’ سورۂ اِسراء ‘‘ کہتے
ہیں ۔
(2)…سورۂ سبحان۔ سبحان
کا معنی ہے پاک ہونا، اور اس سور ت کی ابتداء لفظِ ’’سبحان ‘‘ سے کی گئی اس مناسبت
سے اسے’’ سورۂ سبحان ‘‘کہتے ہیں ۔
(3)…بنی اسرائیل۔ اسرائیل
کا معنی ہے اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ، یہ حضرت
یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا لقب ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کو ’’بنی
اسرائیل ‘‘کہتے ہیں ، اس سورت میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کے وہ
اَحوال بیان کئے گئے ہیں جو دیگر سورتوں میں بیان نہیں ہوئے، اس مناسبت سے اس
سورت کو’’بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں اور یہی اس کا مشہور نام ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل کے
فضائل:
اس سورت کے فضائل پر
مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں :
(1) …حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف اور
سورۂ مریم فصاحت و بلاغت میں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ایک عرصہ ہوا کہ
میں نے انہیں زبانی یاد کر لیا تھا۔( بخاری، کتاب التفسیر،
سورۃ بنی اسرائیل،
۳ / ۲۵۸، الحدیث: ۴۷۰۸)
(2) …حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اس وقت تک اپنے بستر پر
نیند نہیں فرماتے تھے جب تک سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمر کی تلاوت نہ کر لیں
۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۱-باب،
۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۲۹۲۹)
مضامین
سورۂ بنی
اسرائیل کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں دینِ اسلام کے عقائد جیسے توحید، رسالت، مرنے کے
بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اعمال کی جزا اور سزا ملنے پر زور
دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مشرکین کے کثیر شُبہات کا اِزالہ کیا گیا ہے۔ اس
کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے
گئے ہیں ۔
(1) …اس کی پہلی آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم معجزے معراج کا ایک حصہ بیان کیا گیا ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے مختصر حصے میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس تشریف لے گئے اور یہمعجزہ اللّٰہ تعالیٰ
کی قدرت کی اور بارگاہِ الٰہی میں نبی
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی عزت و تکریم کی روشن ترین دلیل ہے۔
(2) …بنی اسرائیل کے مُفَصّل حالات بیان کئے گئے۔
(3) … یہ بیان کیاگیا ہے کہ جو نیک اعمال کرے اور سیدھی راہ پر آئے اس
میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور جو برے
اعمال کرے اور گمراہی کا راستہ اختیار کرے اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
(4) … یہ بیان کیا گیا ہے کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں (1) نیک نیت۔
(2) عمل کو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔ (3) ایمان۔
(5) …اجتماعی زندگی گزارنے کے بہترین اصول بیان کئے گئے ہیں جیسے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے
بارے میں دیگر اَحکام بیان کئے گئے ۔ فضول
خرچی کرنے سے منع کیا گیا اور مِیانہ رَوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ تنگدستی
کے خوف سے اولاد کو قتل کرنے، کسی کو ناحق قتل کرنے، زنا کرنے اور یتیم کا مال
ناحق کھانے سے منع کیا گیا ۔ ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور زمین پر اِترا کر نہ چلنے کا
حکم دیاگیا۔
(6) …قرآنِ پاک نازل کرنے کے مَقاصد بیان کئے گئے۔
(7) … حضرت آد م عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنے والا واقعہ بیان کیا گیا۔
(8) …قرآنِ پاک کے بے مثل ہونے کو بیان کیاگیا۔
(9)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعے کا کچھ حصہ بیان کیا گیا۔
(10)…قرآنِ پاک کو تھوڑ ا تھوڑا کر کے نازل کرنے کی حکمت بیان کی گئی ۔
مناسبت
سورۂ نحل
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ بنی اسرائیل کی اپنے سے ماقبل سورت ’’نحل‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت
یہ ہے کہ سورۂ نحل کے آخر میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار ومشرکین کی طرف سے
پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کا
حکم دیا اور سورۂ بنی اسرائیل کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کو بیان فرمایا ۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں میں انسان پر اللّٰہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسری مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ نحل میں بیان کیا گیا کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمایاہے اور سورۂ بنی اسرائیل
میں قرآنِ پاک نازل
کرنے کے مقاصد بیان کئے گئے۔