Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَاؕ-فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا(7)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ اَحْسَنْتُمْ: اگر تم بھلائی کرو گے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو غلبہ و طاقت اور اقتدار و اختیار عطا کیا گیا تو ساتھ ہی انہیں یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم بھلائی کرو گے اور اس پر ثابت قدم رہو گے اور اسی بھلائی کے راستے پر چلتے رہو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے اور دوبارہ پرانی روِش اپناؤ گے اور فتنہ و فساد اور نافرمانی کی زندگی گزارنے لگو گے تواس کا انجام تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا چنانچہ وہی ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق جب دوسری باربنی اسرائیل کے فساد کرنے کاوقت آیا اور انہوں نے دوبارہ وہی پرانی حرکتیں کرنا شروع کردیں اور انہوں نے پھر فساد برپا کیا حتّٰی کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کے درپے ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچالیا اور اپنی طرف اُٹھالیا اور بنی اسرائیل نے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کردیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر اہلِ فارس اور روم کو مسلط کیا تاکہ وہ انہیں قتل کریں ، قید کریں اور اتنا پریشان کریں کہ رنج وپریشانی کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر ہوں پھر ان مسلط ہونے والے لوگوں نے یہ بھی کیا کہ وہ بیتُ المقدس کی مسجد میں داخل ہوئے اور اسے ویران کردیا اور بنی اسرائیل کے شہروں پر غلبہ پاکر انہیں تباہ و برباد کردیا۔(تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ:۷، ۷ / ۳۰۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۶۲، ملتقطاً)
بنی اسرائیل کے دوہرے فساد اور ان کے انجام سے مسلمان نصیحت حاصل کریں :
بنی اسرائیل کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنی تاریخ کو دیکھیں تو پہلی نظر میں ہی مسلمانوں کے عروج و زوال کا سبب واضح ہو جائے گا کہ مسلمان جب تک قرآنِ مجید کے احکامات اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت پر عمل پیرا رہے تو دنیا بھر میں انہیں غلبہ،قوت اور اِقتدار حاصل رہا اور انہیں لاثانی شان و شوکت حاصل رہی اور جب سے انہوں نے قرآن و حدیث کی پیروی میں سستی کرنا شروع کی اور حرام و ناجائز اَفعال میں مبتلا ہوئے تب سے ان کی شوکت اوراِقتدار زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں اسلامی ملکوں اور شہروں کو تباہی وبربادی کے ایسے طوفان کا سامنا کرنا پڑا کہ لاکھوں افراد کی آبادی پر مشتمل شہروں میں کوئی زندہ انسان نظر نہ آتا تھا اوروحشی پرندے اور جانور ان کی لاشوں پر گوشت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ پھر جب مسلمان اپنی بے عملی چھوڑ کر عمل کی طرف مائل ہوئے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو انہوں نے حرز جاں بنایا تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں پھر دنیا میں طاقت اور سلطنت عطا فرما دی اور مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت بحال کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے، لیکن جب پھر مسلمانوں میں بد عملی کا رواج ہوا اور مسلمان شراب ورَباب کی مستی میں گم ہو گئے اور نفسانی لذات کے حصول کو اپنا مشغلہ بنا لیا اور مال و دولت کی حرص و ہَوس کا شکار ہو گئے تو اس کے بعد مسلمانوں کا جو حال ہوا ہے وہ صاحبِ نظر سے پوشیدہ نہیں ،اگر اب بھی مسلمان نہ سنبھلے اور انہوں نے اپنی عملی حالت کو نہ سدھارا تو حالات اس سے بھی بدتر ہوجائیں گے۔