banner image

Home ur Surah Al Isra ayat 72 Translation Tafsir

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل (اَلْاَسْرَاء)

Al Isra

HR Background

یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ-فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(71)وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا(72)

ترجمہ: کنزالایمان جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جو اپنا نامہ داہنے ہاتھ میں دیا گیا یہ لوگ اپنا نامہ پڑھیں گے اور تاگے بھر ان کا حق نہ دبایا جائے گا۔ اور جو اس زندگی میں اندھا ہو وہ آخرت میں اندھا ہے اور اور بھی زیادہ گمراہ ۔ ترجمہ: کنزالعرفان یاد کروجس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور جو اس زندگی میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور وہ زیادہ گمراہ ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یَوْمَ نَدْعُوْا: جس دن ہم بلائیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں  گے جس کی وہ دنیا میں  پیروی کرتا تھا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس سے مراد وہ پیشوا ہے جس کی دعوت پر دنیا میں  لوگ چلے خواہ اس نے حق کی دعوت دی ہو یا باطل کی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۸۳) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دنیا میں  چلتی رہی اور اُنہیں  اُسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ اے فلاں  کے پیروکارو!۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۶۳۲، ملخصاً)

اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں  صالحین کو ہی اپنا پیشوا بنانا چاہیے تاکہ قیامت میں  انہی کے ساتھ حشر ہو۔

{فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ:تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا۔} یعنی  نیک لوگ جو دنیا میں  صاحبِ بصیرت تھے اور راہِ راست پر چلتے رہے، اُن کو اُن کا نامہ اعمال دائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا، وہ اس میں  اپنی نیکیاں  لکھی ہوئی دیکھیں  گے تو اس کو ذوق و شوق سے پڑھیں  گے اور جو بدبخت ہیں ، کفار ہیں  اُن کے نامہ اعمال بائیں  ہاتھ میں  دیئے جائیں  گے، وہ انہیں  دیکھ کر شرمندہ ہوں  گے اور دہشت سے پوری طرح پڑھنے پر قادر نہ ہوں  گے۔ تو نیک لوگوں  کے اعمال کے ثواب میں  ادنیٰ بھی کمی نہ کی جائے گی اور یونہی کفار کی سزا میں  بھی کمی نہ ہوگی،( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۵ / ۱۸۷-۱۸۸، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۳۶، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۸۴، ملتقطاً)  ہاں  گناہگار مسلمانوں  کی سزا میں  کمی بھی ہوگی اور بہت بڑی تعداد کی معافی بھی۔

{ اَعْمٰى: اندھا۔} ارشاد فرمایا کہ جودنیا کی زندگی میں  ہدایت کا راستہ دیکھنے سے اندھا ہوگا وہ آخرت میں  نجات کا راستہ دیکھنے سے بھی اندھا ہوگا بلکہ قیامت میں وہ اور بھی زیادہ گمراہ ہوگا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۸۴، ملخصاً)