Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 82 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا(82)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ:اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔} قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۱۸۹، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۱۹۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۵۴۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید میں جسمانی امراض کی بھی شفا موجود ہے:
یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال و اَفعال سے ثابت ہے،اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ عرب کے کسی قبیلے میں گئے ،اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی دورا ن قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’تم نے چونکہ ہماری مہمان نوازی نہیں کی اس لئے ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ا س کی اجرت نہ دو گے۔ چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بکریوں کا ایک ریوڑ مقرر کیا ،پھر (ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنے تھوک کی چھینٹیں اس پر ڈالیں تو وہ تندرست ہو گیا۔ پھر قبیلے کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک(ان کے بارے میں )رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھ نہ لیں ۔ جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرائے اور ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ یہ دم ہے ؟ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکال لو۔( بخاری، کتاب الطب، باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب، ۴ / ۳۰، الحدیث: ۵۷۳۶)
(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’جس مرض میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی تھی ، اس مرض میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ فلق اور سورۂ والناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے اور جب طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو میں وہ سورتیں پڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دم کیا کرتی اور خود آپ کےہاتھ کو پھیرتی کیونکہ وہ(میرے ہاتھ سے زیادہ) بابرکت ہے۔(بخاری، کتاب الطب، باب فی المرأۃ ترقی الرجل، ۴ / ۳۴، الحدیث: ۵۷۵۱)البتہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو قرآن شفا ہے مگر اس قرآن کے ذریعے ظالموں یعنی کافروں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے کہ کفرو ضد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔