Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 85 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(85)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ: اور تم سے پوچھتے ہیں ۔} اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق دو اَحادیث درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں مدینہ منورہ کے غیر آباد حصے میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ (چلتے ہوئے) ایک چھڑی سے ٹیک لگاتے تھے، اس دوران یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزر ہوا توان میں سے بعض افراد نے کہا: ان سے روح کے بارے میں دریافت کرو اور دوسرے بعض افراد نے کہا: ان سے دریافت نہ کرو کیونکہ ہو سکتاہے کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں پسند نہ آئے۔ بعض افراد نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے، توایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا :اے ابوالقاسم! روح کیا ہے ؟ (حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا: آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے، میں کھڑ ارہا اور جب وہ کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا
’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب قول اللّٰہ تعالی: وما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً، ۱ / ۶۶، الحدیث: ۱۲۵)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جسے ہم اس شخص (یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پوچھیں ۔ انہوں نے کہا: ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ قریش نے آپ سے دریافت کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی
’’ وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔( ترمذی، کتاب ا لتفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسراءیل، ۵ / ۹۵، الحدیث: ۳۱۵۱)
بخاری شریف کی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس وقت نازل ہوئی ہے جب مدینہ منورہ میں یہودیوں نے روح کے بارے میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا، اور ترمذی شریف کی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ، ان دونوں احادیث میں ایک تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہو، پہلی بار مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفارِ قریش نے روح کے بارے میں سوال کیا اور دوسری بار مدینہ منورہ میں اس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں نے روح کے بارے میں دریافت کیا۔ دوسری تطبیق یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ اسی آیت کی وحی ہوئی بلکہ صرف نزولِ وحی کی کَیْفِیَّت طاری ہونے کا ذکر ہے ، اس لئے ممکن ہے اس وقت یہ وحی ہوئی ہو کہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں وہی آیت تلاوت فرما دیں جو اس سے پہلے آپ پر نازل ہو چکی ہے اور وہ آیت یہ ہے
’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
یہ تطبیق علامہ اسماعیل بن عمر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفسیر ابن کثیر میں اسی مقام پر ذکر کی ہے ۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روح کا علم حاصل ہے:
اِس آیت میں بتا دیا گیا کہ روح کا معاملہ نہایت پوشیدہ ہے اور اس کے بارے میں علمِ حقیقی سب کو حاصل نہیں بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جسے عطا فرمائے وہی اسے جان سکتا ہے جیسا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا علم عطا کیا گیا ، چنانچہ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ایک جماعت نے گمان کیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے روح کا علم مخلوق پر مُبْہَم کر دیا اور اسے اپنی ذات کے لئے خاص کر دیا ہے، حتّٰی کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی روح کے بارے میں علم نہیں رکھتے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا منصب و مقام اس سے بہت عظیم ہے کہ آپ کو بھی روح کا علم نہ ہو حالانکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عالِم بِاللّٰہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما کر آپ پر احسان فرمایا ہے کہ
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔
ان لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ روح کا علم ان علوم میں سے ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے نہیں سکھائے، کیاانہیں اس بات کی خبر نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں جانتے تھے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۱۹۸)
اسی طرح علامہ بدر الدین عینی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا منصب بہت بلند ہے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب اور اس کی مخلوق کے سردار ہیں ، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روح کے بارے میں علم نہ ہو حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ ارشاد فرما کر احسان فرمایا ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔( عمدۃ القاری، کتاب العلم، باب قول اللّٰہ تعالی: وما اوتیتم من العلم الاّ قلیلاً، ۲ / ۲۸۴، تحت الحدیث: ۱۲۵)
{وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا:اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’علمِ حادث علمِ قدیم کے مقابلے میں تھوڑا ہے کیونکہ بندوں کا علم مُتَناہی (یعنی اس کی ایک انتہا) ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے علم کی کوئی انتہاء نہیں اور متناہی علم غیر متناہی علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے اس عظیم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اولیا ء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا علم انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم ہمارے نبی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو اور ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو تو وہ علم جو بندوں کو دیا گیا ہے فی نَفْسِہٖ اگرچہ کثیر ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں تھوڑا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۱۹۷)اللّٰہ تعالیٰ کے علم سے متعلق صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ اورحضرت خضرعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی میں سوار ہوئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر ایک یا دو چونچیں سمندر میں ماریں ۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اے موسیٰ !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میرا اور آپ کا علم اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے سامنے اس طرح ہے جیسے چڑیا کا سمندر میں چونچ مارنا۔( بخاری، کتاب العلم، باب ما یستحبّ للعالم اذا سئل: ایّ الناس اعلم؟۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳، الحدیث: ۱۲۲) یہ بھی سمجھانے کیلئے بیان کیا گیا ہے ورنہ متناہی اور غیر متناہی میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔