banner image

Home ur Surah Al Jasia ayat 17 Translation Tafsir

اَلْجَاثِيَة

Surah Al Jasia

HR Background

وَ اٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِۚ-فَمَا اخْتَلَفُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُۙ-بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(17)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہم نے اُنھیں اس کام کی روشن دلیلیں دیں تو اُنھوں نے اختلاف نہ کیا مگر بعد اس کے کہ علم اُن کے پاس آچکا آپس کے حسد سے بے شک تمہارا رب قیامت کے دن اُن میں فیصلہ کردے گا جس بات میں اختلاف کرتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے انہیں اس کام کی روشن دلیلیں دیں تو انہوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی آپس کے حسد کی وجہ سے اختلاف کیا تھا ۔بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ: اور ہم نے انہیں  اس معاملے کی روشن دلیلیں  دیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات میں  دین اور حلال و حرام کے بیان نیزتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے معاملے کی روشن دلیلیں  دیں  لیکن انہوں  نے سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے منصب اور ریاست ختم ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حسد کیا اور دشمنی مول لی اور اپنے پاس علم آجانے کے بعد رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر پہلے سے متفق ہونے کے باوجود آپ کی بعثت کے بارے میں  اختلاف کیا حالانکہ علم اختلاف زائل کرنے کا سبب ہوتا ہے اور یہاں  ان لوگوں  کے لئے اختلاف کا سبب ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مقصود علم نہ تھا بلکہ اُن کا مقصود منصب و ریاست کی طلب تھی اسی لئے انہوں نے اختلاف کیا۔ آخر میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب قیامت کے دن بنی اسرائیل کے درمیان اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں  وہ اختلاف کرتے ہیں ۔( خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۱۹، جلالین مع صاوی، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۵ / ۱۹۲۴، ملتقطاً)

علماء میں  حسد پیدا ہونے کا نقصان:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم اختلافات کو زائل کرنے والا اور جھگڑے مٹانے والا ہے لیکن جب عالِم میں  حسد پیدا ہو جائے تو علم اختلافات کو زائل کرنے اور جھگڑے مٹانے کی بجائے بڑھا دیتا ہے۔افسوس!ہمارے زمانے میں  بھی علماء کی ایک تعداد ایسی ہے جو باطنی گناہوں  کا یا تو علم ہی نہیں  رکھتے اور یا پھر علم رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے اختلافات اور آپس میں  انتشار کا شکار ہیں  اور ا س کا بنیادی سبب ایک دوسرے سے حسد کرنا ہے۔علماء کے باہمی حسد کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک عالم دوسرے عالم سے تو حسد کرتا ہے لیکن کسی عبادت گزار سے حسد نہیں  کرتا اسی طرح ایک عبادت گزار دوسرے عبادت گزار سے تو حسد کرتا ہے لیکن عالم سے حسد نہیں  کرتا۔مزید فرماتے ہیں ’’وعظ کرنے والا جتنا کسی دوسرے وعظ کرنے والے سے حسد کرتا ہے اتناکسی فقیہ یا حکیم سے حسد نہیں  کرتا کیونکہ ان دونوں  کے درمیان ایک مقصد پر جھگڑا ہوتا ہے تو ان حسدوں  کی اصل وجہ اور دشمنی کی بنیاد کسی ایک غرض پر اکٹھاہونا ہے اور ایک غرض پر وہ دو آدمی جمع نہیں  ہوتے جو ایک دوسرے سے دور ہوں  بلکہ ان کے درمیان کسی قسم کی مناسبت ضروری ہے اسی لئے ان دو آدمیوں  کے درمیان حسد ہوتا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغضب والحقد والحسد، القول فی ذمّ الحسد۔۔۔ الخ، بیان السبب فی کثرۃ الحسد۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰)

            اور حسد کی وجہ سے فی زمانہ علماء کا باہمی حال یہ نظر آتا ہے جس کی نشاندہی اس حدیث پاک میں  کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت پر ایک زمانہ ایساآئے گا کہ فقہاء ایک دوسرے سے حسد کریں  گے اور ایک دوسرے سے اس طرح لڑائی کیا کریں  گے جیسے جنگلی بکرے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ عبد الرحمٰن، ۵۴۴۷-عبد الرحمٰن بن ابراہیم بن محمد بن یحی۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۳۰۱)

            اللہ تعالیٰ اہلِ علم حضرات کو اپنا اصلی مقصد سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔