banner image

Home ur Surah Al Jasia ayat 21 Translation Tafsir

اَلْجَاثِيَة

Surah Al Jasia

HR Background

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(21)

ترجمہ: کنزالایمان کیا جنھوں نے برائیوں کا اِرتکاب کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُنھیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ اِن کی اُن کی زندگی اور موت برابر ہوجائے کیا ہی بُرا حکم لگاتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیاجن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے (کیا) ان کی زندگی اور موت برابر ہوگی؟ وہ کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ: کیا جن لوگوں  نے برائیوں  کا ارتکاب کیا۔} مکہ کے مشرکین کی ایک جماعت نے مسلمانوں  سے کہا تھا کہ اگر تمہاری بات حق ہو اور مرنے کے بعد اٹھنا ہو تو بھی ہم ہی افضل رہیں  گے جیسا کہ دنیا میں  ہم تم سے بہتر رہے۔ ان کے رد میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جولوگ کفر اور گناہوں  میں  مصروف ہیں  کیا وہ یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم انہیں  ان جیسا کردیں  گے جو ایمان لائے اورجنہوں  نے اچھے کام کئے،کیا ایمانداروں  اور کافروں  کی موت اور زندگی برابر ہوجائے گی؟ ایسا ہر گز نہیں  ہوگا کیونکہ ایماندار زندگی میں  نیکیوں پر قائم رہے اور کافر بدیوں  میں  ڈوبے رہے تو ان دونوں  کی زندگی برابر نہ ہوئی اور ایسے ہی ان کی موت بھی یکساں  نہیں  کیونکہ مومن کی موت بشارت اور رحمت و کرامت پر ہوتی ہے جبکہ کافر کی موت رحمت سے مایوسی اور ندامت پر ہوتی ہے اور کافراپنے آپ کو مومنین کے برابر سمجھ کر کتنا برا حکم لگا رہے ہیں  حالانکہ مومنین تو قیامت کے دن اعلیٰ جنتوں  میں  عزت و کرامت اور عیش و راحت پائیں  گے اور کفار جہنم کے سب سے نچلے طبقوں  میں  ذلّت و اِہانت کے ساتھ سخت ترین عذاب میں  مبتلا ہوں  گے۔(خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۱۹-۱۲۰، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۱۱۹-۱۱۲۰، ملتقطاً)

مومن اور کافر کی زندگی ایک جیسی نہیں :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومن اور کافر کی زندگی ایک جیسی نہیں  اسی طرح دونوں  کی موت میں  بھی فرق ہے، ا س سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو نہ صرف خود اپنی صورت، سیرت اورزندگی کافروں  کی طرح بنائے ہوئے ہیں  بلکہ دوسروں  کو بھی صورت و سیرت میں  کفار کی طرح ہونے کی دعوت دینے میں  مصروف ہیں  ،حالانکہ کسی مسلمان کی یہ شان نہیں  کہ وہ صورت اور سیرت میں  کفار کی طرح بنے بلکہ مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ صورت اور سیرت میں  کفار سے ممتاز رہے ۔اسی مناسبت سے یہاں  ہم چند وہ اعمال بیان کرتے ہیں  جن سے مسلمانوں  اور کفار میں  فرق کیا جاتا ہے۔

(1)…نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا مسلمانوں  کا کام ہے جبکہ برائی کی دعوت دینا اور نیکی سے منع کرنا کافروں  اور منافقوں کا کام ہے،جیسا کہ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ ‘‘(توبہ:۶۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: منافق مرد اور منافق عورتیں  سب ایک  ہی ہیں ،برائی کا حکم دیتے ہیں  اور بھلائی سے منع کرتے ہیں ۔

            اورمسلمانوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایا :’’وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘(توبہ:۷۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیںایک دوسرے کے رفیق ہیں ،بھلائی کا حکم دیتے ہیں  اور برائی سے منع کرتے ہیں۔

(2)…نماز ادا کرنا مسلمانوں  کا کا م ہے اور نماز ترک کرنا مشرکوں  کا سا کام ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘(روم:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں  میں سے نہ ہونا۔

             اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان اور اس کے کفر و شرک کے درمیان فرق نماز نہ پڑھنا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، ص۵۷، الحدیث: ۱۳۴(۸۲))

(3)…مسلمان داڑھیاں  بڑھاتے اور مونچھیں  پَست رکھتے ہیں  جبکہ مشرکین اس کے برعکس کرتے تھے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھیاں  بڑھاؤ اور مونچھیں  کم کر دو۔(بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، ۴ / ۷۵، الحدیث: ۵۸۹۲)

            اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مونچھیں  کم کراؤ اور داڑھیاں  چھوڑ دو اور مجوسیوں  کی مخالفت کرو۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، ص۱۵۴، الحدیث: ۵۵(۲۶۰))

            اللہ تعالیٰ ہمیں  صورت ا ور سیرت میں  کفار سے ممتاز رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔