Home ≫ ur ≫ Surah Al Jasia ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ(7)یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{وَیْلٌ: خرابی ہے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایاگیا کہ کافر اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کو ن سی بات پر ایمان لائیں گے ، اور جب وہ ایمان نہ لائے تو اس آیت سے ان کے لئے بہت بڑی وعید بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار کے لئے خرابی ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ انہیں سن کر ایمان لانے سے تکبر کرتے ہوئے اپنے کفر پراصرار کرتا ہے اور وہ ایسا بن جاتا ہے گویااس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں ،تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ایسے شخص کو قیامت کے دن جہنم کے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔
مفسّرین نے اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول یہ بھی بیان کیاہے کہ نَضْر بن حارِث عجمی لوگوں (جیسے رستم اور اسفندیار) کے قصے کہانیاں سنا کر لوگوں کو قرآنِ پاک سننے سے روکتا تھا ،اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔
یاد رہے کہ اس آیت کا نزول اگرچہ نَضْر بن حارِث کے لئے ہے لیکن اس وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جو دین کو نقصان پہنچائے اور ایمان لانے اور قرآن سننے سے تکبر کرے۔( تفسیرطبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۱۱ / ۲۵۴، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۱۷، ملتقطاً)