Home ≫ ur ≫ Surah Al Jin ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَّ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّ شُهُبًا(8)وَّ اَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِؕ-فَمَنْ یَّسْتَمِـعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا(9)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو چھوا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جِنّات نے کہا: ہم نے اپنی عادت کے مطابق آسمان والوں کا کلام سننے کیلئے آسمانِ دنیا پر جانا چاہا تو اسے یوں پایا کہ فرشتوں کے سخت پہرے اور آگ کی چنگاریوں سے بھردیا گیا ہے تاکہ جِنّات کو آسمان والوں کی باتیں سننے کے لئے آسمان تک پہنچنے سے روکا جائے حالانکہ ہم نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے آسمان میں فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے پہرے اور آگ کی چنگاریوں سے خالی کچھ جگہوں پر بیٹھ جایاکرتے تھے، اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد وہ جگہیں بھر دی گئی ہیں لہٰذاب جو کوئی سننے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنی تاک میں ستارے کی صورت میں آگ کاشعلہ پائے گا جس سے اس کومارا جائے۔( تفسیر قرطبی، الجن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰-۱۱، الجزء التاسع عشر، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۳۱۷، ملتقطاً)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’جن آسمانوں کی طرف چڑھتے اور انتہائی غور سے وحی سنتے اورایک کلمہ سن کر 9کلمے اپنی طرف سے ملالیتے،ایک کلمہ تو حق ہوتا لیکن جو اضافہ کرتے وہ باطل ہوتا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کے بعد انہیں وہاں جانے سے روک دیاگیا،انہوں نے یہ معاملہ ابلیس سے ذکر کیا اور اس سے پہلے انہیں ستاروں سے نہیں مارا جاتا تھا۔ابلیس نے کہا کہ ضرور زمین میں کوئی نیا واقعہ رونماہوا ہے جس کی وجہ سے یہ رکاوٹ آئی ہے ،چنانچہ اس نے اپنا لشکر بھیجا،انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہاڑوں کے درمیان (یا مکہ میں ) نماز پڑھتے ہوئے پایا،پھر ا س لشکر نے ابلیس سے ملاقات کر کے یہ بات اسے بتائی تو ا س نے کہا یہی وہ نئی بات ہے جو زمین میں پیدا ہوئی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الجن، ۵ / ۲۱۵، الحدیث: ۳۳۳۵)