Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 13 ≫ Translation ≫ Tafsir
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًى(13)وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا(14)هٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-لَوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍؕ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاﭤ(15)وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْـكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا(16)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا:جب وہ کھڑے ہوگئے تو کہنے لگے۔} انہوں نے اپنی بات دقیانوس بادشاہ کے سامنے کی جب اس نے انہیں اپنے دربار میں بلا کربتوں کی عبادت نہ کرنے پر باز پُرس کی تھی۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۶۴۳، ملخصاً)
{وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ: اور جب تم ان لوگوں سے جدا ہوجاؤ۔} یہاں سے جو کلام ہے یہ ان حضرات کا آپس میں تھا ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس کافر قوم میں نہ رہو بلکہ ان سے جدا ہوجاؤ اورجا کر کہیں کسی گوشہ میں چھپ جاؤ، جہاں ان کے فتنہ سے بچ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیا کریں ۔ ہم کو امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں گوشۂ عافیت ضرور دے گا۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۴۴، ملخصاً)
فتنوں کے زمانے میں ایمان کی حفاظت کاذریعہ:
اس سے معلوم ہوا کہ فتنوں کے زمانہ میں خلقت سے علیحدگی اپنے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں لے کر یہ پہاڑ کی چوٹیوں اور برساتی مقامات پر چلا جائے گا کیونکہ وہ اپنے دین کو بچانے کی خاطر فتنوں سے بھاگ رہا ہوگا۔( بخاری، کتاب الفتن، باب التعرّب فی الفتنۃ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۷۰۸۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’عنقریب فتنے کھڑے ہوں گے جن میں بیٹھا ہو ا شخص کھڑے سے اچھا رہے گا اور کھڑا ہوا چلنے والے سے اچھا رہے گا۔ اور چلنے والا دوڑنے والے سے اچھا رہے گا۔ جو اس (فتنے) کی طرف جھانکے گا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ان دنوں جس کو بچاؤ کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ ملے تو ا سے اس میں پناہ لے لینی چاہئے۔( بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیہا خیر من القائم، ۴ / ۴۳۶، الحدیث: ۷۰۸۲)
حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب فتنے ہوں گے ، خبردار پھر فتنے ہوں گے ، پھر وہ فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھا ہوا چلتے ہوئے سے بہتر ہوگا اور چلتا ہوا دوڑتے ہوئے سے بہتر ہوگا۔ آگاہ رہو کہ جب وہ فتنے واقع ہوں تو جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اونٹوں سے مل جائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں چلا جائے اور جس کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں پہنچ جائے۔ یہ سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس کے پاس اونٹ ، بکریاں اور زمین نہ ہو تو وہ کیا کرے ۔ ارشاد فرمایا ’’ وہ اپنی تلوار کی طرف رخ کرے اور اس کی دھار کو پتھر سے کوٹ دے ،پھر اگر الگ ہونے کی طاقت رکھے تو الگ ہو جائے۔ (یعنی اپنی تلوار توڑ دے تاکہ باہمی جنگ و جدال میں حصہ ہی نہ لے سکے۔)( مشکاۃ، کتاب الفتن، الفصل الاول، ۲ / ۲۷۹، الحدیث: ۵۳۸۵)
بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے تَقیہ نہیں کرتے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ِ الٰہی تقیہ نہیں کرتے جیسے اصحاب ِ کہف نے علاقہ چھوڑ دیا لیکن تقیہ نہ کیا۔