ترجمہ: کنزالایمان
اس بارے میں نہ وہ کچھ علم رکھتے ہیں نہ ان کے باپ دادا کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نِرا جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اس بارے میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اورنہ ان کے باپ دادا۔کتنا بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ بالکل جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىٕهِمْ:اس بارے میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اور نہ ان کے باپ دادا۔} ارشاد فرمایا کہ ( اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا کوئی بچہ بنایا ہے) اس بارے
میں نہ تووہ کچھ علم رکھتے ہیں اور نہ ان کے باپ دادا جن کی وہ اس عقیدے میں پیروی کر
رہے ہیں ، یعنی علم اس بات کا تقاضا ہی نہیں کرتا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی کوئی اولادبنائے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ
کے لئے بچے کا ہونا فی نَفْسِہٖ محال ہے اور انہوں نے یہ بات ان چیزوں میں غور
و فکر کے بغیر مَحض جہالت کی وجہ سے کہی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہیں اور جو اللّٰہ تعالیٰ
کے لئے محال ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بچہ ہونا کتنا بڑا بول ہے جو ان
کے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں بالکل
جھوٹ کہہ رہے ہیں اوراس بات کے سچ ہونے کا
امکان تک بھی نہیں ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۵،
۵ / ۲۱۵-۲۱۶)
سورت کا تعارف
سورۂ کہف
کا تعارف
مقامِ نزول:
یہ سورت مکۂ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن، تفسیر سورۃ
الکھف، ۳ / ۱۹۶)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس سورت میں 12رکوع اور 110آیتیں ہیں ۔
’’کہف ‘‘نام رکھنے کی وجہ
:
کہف کا معنی ہے پہاڑی غار ، اور اس سورت کی آیت نمبر 9تا 26میں اصحاب ِ کہف یعنی پہاڑی
غار والے چنداولیاءِ کرام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا
نام’’ سورۂ کہف‘‘ رکھا گیا۔(صاوی، سورۃ الکہف، ۴ / ۱۱۷۹)
سورۂ کہف
کے فضائل:
(1) …سورۂ کہف پڑھنے سے گھر میں سکون
اور برکت نازل ہوتی ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک مرتبہ ایک
صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سورۂ
کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور بھی تھا ، وہ
بدکنا شروع ہو گیا تو انہوں نے سلامتی کی دعا کی (اور غور
سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو) انہیں ایک بادل نظر آیا ، جس نے انہیں ڈھانپ رکھا
تھا، ان صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس واقعہ کا ذکر جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کیا،
تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، اے فلاں ! قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے رہا کرو، وہ بادل
سکینہ تھا جو قرآنِ مجید کی وجہ سے نازل ہوا۔( بخاری، کتاب
المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام،
۲ / ۵۰۴، الحدیث:
۳۶۱۴)
(2) …حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو سورۂ
کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا وہ دجال (کے فتنے )
سے محفوظ رہے گا۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل سورۃ الکہف وآیۃ
الکرسی، ص۴۰۴، الحدیث:
۲۵۷(۸۰۹))
(3) …حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جوشخص
جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی
روشنی رہے گی۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الکھف، فضیلۃ قراءۃ سورۃ الکھف
یوم الجمعۃ،۳ / ۱۱۷، الحدیث:
۳۴۴۴)
مضامین
سورۂ کہف کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون
یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اَصحابِ کہف رَضِیَ
اللّٰہُتَعَالٰی عَنْہُمْ اور حضرت
ذوالقرنین رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں کئے گئے کفار کے سوالات کا جواب دیا گیا ہے ، چنانچہ آیت
نمبر 9 سے لے کر 26 تک اصحابِ کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے
اور اس واقعے میں ان لوگوں کے لئے ایک بہترین مثال ہے جو اپنے دین اور
عقیدے کی حفاظت کے لئے اپنا وطن، عزیز رشتہ دار، دوست اَحباب اور اپنا مال چھوڑ
دیتے ہیں کیونکہ اصحابِ کہف چند نوجوان مسلمان تھے جو کہ بت پرست بادشاہ سے اپنے
دین کی حفاظت کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہو گئے
تھے، اور آیت نمبر 83 سے لے کر 99 تک حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ
بیان کیاگیا اور اس واقعے میں بادشاہوں اور حکمرانوں کے لئے
بڑی عبرت و نصیحت ہے کیونکہ حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کی
حکمرانی مشرق سے لے کر مغرب تک تھی اس کے باوجود وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ، اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ،
اپنی رعایا سے شفقت و مہربانی کے ساتھ پیش آنے والے اور ان کے ساتھ عدل وانصاف
کرنے والے تھے۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(1) …اس کی ابتداء
میں قرآنِ مجید کے اوصاف بیان کئے گئے کہ یہ عدل والی اور مستقیم کتاب ہے
اور مسلمانوں کو جنت کی بشارت دینے اور کافروں کو جہنم کے عذاب کی وعید
سنانے کے لئے نازل ہوئی ہے۔
(2) …یہ بیان کیا گیاہے کہ
کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کس قدر غمزدہ ہوا
کرتے تھے۔
(3) … اصحابِ کہف کا
واقعہ بیان کر کے حق ظاہر کرنے کے بعد کفار کی سرزنش کی گئی اور وہ عذاب بیان کیا
گیا جو ان
کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔
(4) …ایمان لانے والے اور نیک
اعمال کرنے والے مسلمانوں کی جزا جنت اور اس کی نعمتوں کو بیان کیاگیا
ہے۔
(5) …ایک امیر آدمی جو کہ
متکبر اور کافر تھا اور ایک غریب آدمی جو کہ مومن تھا ان کا واقعہ بیان کیا گیا
تاکہ مسلمان اپنی تنگدستی کی وجہ سے پریشان نہ ہوںاور کافر اپنی دولت کی وجہ سے
دھوکے میں نہ پڑیں ۔
(6)…دنیوی زندگی کی ایک مثال
بیان کی گئی ۔
(7) …فرشتوں کے حضرت
آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو سجدہ کرنے اور شیطان
کے سجدہ نہ کرنے کا واقعہ بیان کیاگیا۔
(8) …آیت
نمبر 60 سے لے کر 82 تک حضرت موسیٰ اور حضرت خضر عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا
گیا۔
(9) …آخرت میں کفار کے
اعمال برباد اور ضائع ہونے کا اعلان کیا گیا۔
(10) …نیک اعمال کرنے والے
مسلمانوں کو ابدی نعمتوں کی بشارت دی گئی ۔
(11) …آخر میں یہ بیان
کیاگیا اللّٰہ تعالیٰ کے علم کی
کوئی حد اور انتہاء نہیں ۔
مناسبت
سورۂ بنی
اسرائیل کے ساتھ مناسبت:
سورۂ کہف کی اپنے سے ماقبل سورت ’’بنی اسرائیل ‘‘کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ قرآنِ پاک میں اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کو ایک ساتھ ذکر کیا جاتا ہے اور چونکہ سورۂ بنی
اسرائیل کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی گئی تھی اس لئے اس کے بعد
وہ سورت ذکر کی گئی جس کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے۔ دوسری مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ کہف کی ابتداء سورہ ٔ بنی اسرائیل کے اختتام سے مناسبت رکھتی ہے کہ
سورۂ بنی اسرائیل کا اختتام اللّٰہ تعالیٰ کی حمد پر ہوا تھا اور سورۂ کہف کی ابتداء بھی اللّٰہ تعالیٰ کی حمد سے ہوئی ۔ تیسری مناسبت یہ
ہے کہ یہودیوں کے کہنے پر مشرکین نے نبی
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کیا ان میں سے ایک چیز یعنی روح کے بارے میں سوال کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں دے دیا گیا اور دوسرے دو سوالوں یعنی اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْاور حضرت ذوالقرنین رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ کے واقعے کا جواب سورۂ کہف میں دیا گیا۔( تناسق الدرر،
سورۃ الکہف، ص ۹۹-۱۰۰)