Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 6 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(6)
تفسیر: صراط الجنان
{عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ: ان کے پیچھے۔} نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ چونکہ کفار کے
ایمان نہ لانے پر نہایت رنجیدہ رہتے تھے اور اس کیلئے بہت زیادہ کوشش کرتے
تھے اِس پر اِس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے قلب ِ مبارک کی
تسلی فرمائی گئی ہے کہ آپ ان بے ایمانوں کے ایمان سے محروم رہنے پر اس
قدر رنج و غم نہ کیجئے اور اپنی جانِ پاک کو اس غم سے ہلاکت میں نہ ڈالئے کہ وہ
قرآن پاک پر ایمان نہیں لاتے۔( صاوی، الکہف، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۱۱۸۲، ملخصاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کاجذبۂ تبلیغ:
اس
طرح کی آیات سے نبی کریم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جذبۂ تبلیغ ، امت پر رحمت و شفقت کی
اِنتہا اور رسالت کے حقوق کو انتہائی اعلیٰ طریقے سے ادا کرنے کا بھی پتہ
چلتا ہیکہ وہ لوگ جن کاحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ طرزِ عمل یہ تھا
کہ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کاہِن، ساحِر، شاعر، مجنون کہتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے شریر
لڑکوں کے غول لگا دیتے جو پھبتیاں کستے،
گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے، کا شور مچا کر پتھر
پھینکتے، راستوں میں کانٹے بچھاتے، جسم مبارک پر
نجاست ڈالتے، دھکے دیتے، مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر
گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے، نیز رحمتِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ غریب
مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے، صحرائے عرب کی تیز دھوپ
میں تنور کی طرح گرم ریت کے ذروں پر مسلمانوں کو
پیٹھ کے بل لٹا کر ان کے سینوں پر بھاری پتھر رکھ دیتے، لوہے کو آگ
میں گرم کرکے ان سے مسلمانوں کے جسموں کو داغتے،
ان کے ساتھ رحمۃٌ لِّلْعَالَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا طرزِ عمل کیا ہے کہ
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اس قدر غمزدہ ہو
رہے ہیں جس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان چلی جانے کا خطرہ
ہے۔
سیّد
المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ کے اس روشن باب کو سامنے رکھتے
ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کرے کہ کیا فی زمانہ
مسلمانوں کی بے راہ روی، اسلامی احکام پر عمل سے دوری، یہودیوں ،
عیسائیوں اور دیگر کافروں کے طور طریقے اور رسم ورواج کی
پیروی اور مسلمانوں میں پھیلی فحاشی و عُریانی دیکھ کر اس
نے ان کی اصلاح کی کتنی کوشش کی اور ان کے یہ حالات دیکھ کر اسے کتنا دکھ، افسوس
اور رنج وغم ہوا۔