Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 79 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا(79)
تفسیر: صراط الجنان
{اَمَّا السَّفِیْنَةُ:وہ جو کشتی تھی۔} حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے افعال کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا ’’وہ جو میں نے کشتی کا تختہ اکھاڑا تھا، اس سے میرا مقصد کشتی والوں کو ڈبو دینا نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کشتی دس مسکین بھائیوں کی تھی، ان میں پانچ تو اپاہج تھے جو کچھ نہیں کرسکتے تھے اور پانچ تندرست تھے جو دریا میں کام کرتے تھے اور اسی پر ان کے روزگار کا دارومدار تھا۔ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا اور انہیں واپسی میں اس کے پاس سے گزرنا تھا، کشتی والوں کو اس کا حال معلوم نہ تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہرصحیح سلامت کشتی کو زبردستی چھین لیتا اور اگر عیب دار ہوتی تو چھوڑ دیتا تھا اس لئے میں نے اس کشتی کو عیب دار کردیا تاکہ وہ ان غریبوں کے لئے بچ جائے۔( تفسیرکبیر، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۹، ۷ / ۴۹۰-۴۹۱، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۲۰-۲۲۱، ملتقطاً)
آیت ’’ اَمَّا السَّفِیْنَةُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… اللہ تعالیٰ اپنے مسکین بندوں پرخاص عنایت اور کرم نوازی فرماتا ہے اور ان پر آنے والے مَصائب اور آفات کو دور کرنے میں کفایت فرماتا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسکین لوگ امیروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ اے عائشہ ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، مسکین (کے سوال )کو کبھی رد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو اور اے عائشہ ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، مسکینوں سے محبت رکھنا اور انہیں اپنے قریب کرنا (کہ ایسا کرنے سے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے اپنا قرب نصیب فرمائے گا۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین یدخلون الجنّۃ قبل اغنیائہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)
(2)…بڑے نقصان اور بڑی تکلیف سے بچنے کے لئے چھوٹے نقصان اور چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لینا بہتر ہے، جیسے یہاں مسکینوں نے چھوٹے نقصان یعنی کشتی کا تختہ اکھاڑ دئیے جانے کو برداشت کیا تو وہ بڑے نقصان یعنی پوری کشتی چھن جانے سے بچ گئے ۔