Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 80 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا(80)فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا(81)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَمَّا الْغُلٰمُ:اور وہ جو لڑکا تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے دوسرے فعل کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا تھا، اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ بڑا ہوکر انہیں بھی سرکشی اور کفر میں ڈال دے گا اور وہ اس لڑکے کی محبت میں دین سے پھر جائیں اور گمراہ ہوجائیں گے، اس لئے ہم نے چاہا کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ اس لڑکے سے بہتر ،گناہوں اور نجاستوں سے پاک اور ستھرا اور پہلے سے زیادہ اچھا لڑکا عطا فرمائے جو والدین کے ساتھ ادب سے پیش آئے، ان سے حسنِ سلوک کرے اور ان سے دلی محبت رکھتا ہو۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۱، ۵ / ۲۸۵، خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۱، ۳ / ۲۲۱، ملتقطاً)
یاد رہے کہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ اندیشہ اس سبب سے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خبر دینے کی وجہ سے اس لڑکے کے باطنی حال کو جانتے تھے۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۴۴۷)مسلم شریف میں حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس لڑکے کو حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قتل کر دیا تھا وہ کافر ہی پیدا ہوا تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو کفر اور سرکشی میں مبتلا کر دیتا۔( مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۰، الحدیث: ۲۹(۲۶۶۱))
باطن کا حال جان کر کسی کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں اگر کوئی ولی کسی کے ایسے باطنی حال پر مطلع ہوجائے کہ یہ آگے جا کر کفر اختیار کر لے گا اور دوسروں کو کافر بھی بنا دے گا اور اس کی موت بھی حالتِ کفر میں ہوگی تو وہ ولی اس بنا پر اسے قتل نہیں کر سکتا، جیسا کہ امام سُبکی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ باطن کاحال جان کر بچے کو قتل کردینا حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ خاص ہے، انہیں اس کی اجازت تھی ۔اب اگر کوئی ولی کسی بچے کے ایسے حال پر مطلع ہو تو اُس کے لئے قتل کرنا جائز نہیں ہے۔( جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۴۴۸)
{خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً:پاکیزگی میں پہلے سے بہتر۔} مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کے بدلے ایک مسلمان لڑکا عطا کیا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی عطا کی جو ایک نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے نکاح میں آئی اور اس سے نبی عَلَیْہِ السَّلَام پیدا ہوئے جن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو ہدایت دی۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۲۲۱)
آیت’’فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… بندے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قضا پر راضی رہنا چاہئے کہ اسی میں بہتری ہوتی ہے۔ اسی بات کو ایک اور آیتِ مبارکہ میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ: ’’وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں ناپسند ہو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(2)… بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں میں سے کوئی چیز لے لیتا ہے کیونکہ اس چیز میں بندے کا نقصان ہوتا ہے اور وہ اس کے نقصان سے غافل ہوتا ہے، پھر اگر وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کے بدلے اس سے بہتر چیز عطا کر دیتا ہے جس میں مومن بندے کا نفع ہوتا ہے نقصان نہیں ہوتا اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔( روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۵ / ۲۸۶، ملخصاً)