banner image

Home ur Surah Al Kahf ayat 85 Translation Tafsir

اَلْـكَهْف

Al Kahf

HR Background

فَاَتْبَعَ سَبَبًا(85)حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا۬ؕ-قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا(86)

ترجمہ: کنزالایمان تو وہ ایک سامان کے پیچھے چلا ۔ یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا پایا اور وہاں ایک قوم ملی ہم نے فرمایا اے ذوالقرنین یا تو تُو انہیں سزا دے یا ان کے ساتھ بھلائی اختیار کرے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو وہ ایک راستے کے پیچھے چلا ۔ یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تواسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ہی ایک قوم کو پایا توہم نے فرمایا: اے ذوالقرنین! یا تو تُو انہیں سزا دے یا ان کے بارے میں بھلائی اختیار کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَبَبًا:سبب۔}سبب سے مراد وہ چیز ہے جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہوخواہ وہ علم ہو ، قدرت ہو یا آلات ہوں ، تو حضرت ذوالقرنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے جس مقصد کا ارادہ کیا اسی کا سبب اختیار کیا، چنانچہ جب آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے مغرب کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو اس کے لئے وہ راستہ اختیار کیا جو انہیں  وہاں  تک پہنچا دے ،جیسا کہ اس آیت میں  ہے ، اور جب انہوں  نے مشرق کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو وہ اس راستے پر چلے جو انہیں  مشرق تک پہنچا دے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۵، ص۶۶۲، بیضاوی، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۵۲۰، ملتقطاً)

{وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ:اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں  ڈوبتا ہواپایا ۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  کے سفر کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں  نے کتابوں  میں  دیکھا تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے سام کی اولاد میں  سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی۔ یہ دیکھ کر وہ چشمۂ حیات کی طلب میں  مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے ، اس سفر میں  آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  کے ساتھ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی تھے، وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں  نے اس میں  سے پی بھی لیا مگر حضرت ذوالقرنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے مقدر میں  نہ تھا اس لئے انہوں  نے وہ چشمہ نہ پایا ۔ اس سفر میں  مغرب کی جانب روانہ ہوئے تو جہاں  تک آبادی ہے وہ سب منزلیں  طے کر ڈالیں  اور مغرب کی سمت میں  وہاں  تک پہنچے جہاں  آبادی کا نام و نشان باقی نہ رہا ، وہاں  انہیں  سورج غروب ہوتے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیاہ چشمہ میں  ڈوبتا ہے جیسا کہ دریائی سفر کرنے والے کو پانی میں  ڈوبتا معلوم ہوتا ہے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۴۵۲-۴۵۳، ملتقطاً)

{وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا:اور اس چشمے کے پاس ہی ایک  قوم کو پایا۔} حضرت ذوالقرنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اس چشمے کے پاس ہی ایک ایسی قوم کو پایا جو شکار کئے ہوئے جانوروں  کے چمڑے پہنے تھے، اس کے سوا اُن کے بدن پر اور کوئی لباس نہ تھے اور دریائی مردہ جانور اُن کی غذا تھے۔ یہ لوگ کافر تھے۔  اللہ تعالیٰ نے اِلہام کے طور پرفرمایا: اے ذوالقرنین! یا تو تُو انہیں  سزا دے اور اُن میں  سے جو اسلام میں  داخل نہ ہو اس کو قتل کردے یا اگر وہ ایمان لائیں تو ان کے بارے میں  بھلائی اختیار کر اور انہیں  اَحکامِ شرع کی تعلیم دے ۔ بعض مفسرین کے نزدیک  اللہ تعالیٰ نے یہ کلام اپنے کسی نبی عَلَیْہِ  السَّلَام سے فرمایا اور انہوں  نے حضرت ذوالقر نین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  سے یہ بات کہی۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۶۲)