banner image

Home ur Surah Al Lail ayat 1 Translation Tafsir

اَلَّيْل

Al Lail

HR Background

وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى(1)وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى(2)وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰۤى(3)

ترجمہ: کنزالایمان اور رات کی قسم جب چھائے ۔ اور دن کی جب چمکے ۔ اور اس کی جس نے نر و مادہ بنائے۔ ترجمہ: کنزالعرفان رات کی قسم جب وہ چھاجائے۔ اور دن کی جب وہ روشن ہو ۔ اور مذکر اور مؤنث کو پیدا کرنے والے کی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى: رات کی قسم جب وہ چھا جائے۔} ارشاد فرمایا کہ رات کی قَسم جب وہ جہان پر اپنی تاریکی سے چھاجائے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے رات کی قسم اس لئے ارشاد فرمائی کہ وہ ساری مخلوق کے سکون کاوقت ہے اور رات میں ہر جاندار اپنے ٹھکانے پر آتا ہے اور ا س میں  مخلوق حرکت وبے قراری سے پُرسکون ہوتی ہے اور ان پر نیند چھا جاتی ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے بدنوں  کے لئے راحت اور ان کی اَرواح کے لئے غذا بنایا ہے اور اس وقت اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقبول بندے سچی نیاز مندی کے ساتھ مناجات میں  مشغول ہوتے ہیں ۔ (خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۸۳، تفسیرکبیر، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۸۱، روح البیان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۴۴۷، ملتقطاً)

{وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى: اور دن کی جب وہ روشن ہو۔} ارشاد فرمایا کہ اور دن کی قسم جب وہ چمکے اور رات کے اندھیرے کو دور کردے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے دن کی قسم اس لئے ارشاد فرمائی کہ وہ رات کی تاریکی دور ہونے کا، سونے والوں  کے بیدار ہونے کا ، جانداروں  کے حرکت کرنے کا اور مَعاش کی طلب میں  مشغول ہونے کا وقت ہے ۔( مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۵۴، تفسیرکبیر، اللّیل، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۱۸۱، ملتقطاً)

رات اور دن، اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں  اور اس کی قدرت کی نشانیاں  ہیں :

            یاد رہے کہ رات اور دن اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں  اور ا س کی قدرت کی عظیم نشانیاں  ہیں ،چنانچہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ‘‘(یونس:۶۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں  سکون حاصل کرواور دن کو آنکھیں  کھولنے والا بنایا بیشک اس میں  سننے والوں  کے لیے نشانیاں  ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل: ۱۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں  بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹاہو اکیا اور دن کی نشانی کودیکھنے والی بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تا کہ تم سالوں  کی گنتی اور حساب جان لو اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔

            اسی طرح رات کے بعد دن کا آنا اور دن کے بعد رات کا آنا بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اگر قیامت تک ہمیشہ رات ہی رہے تو مخلوق کے لئے اپنی معاشی ضروریات پورا کرنا ممکن نہ رہے گا اور اگر قیامت تک ہمیشہ دن ہی رہے تو مخلوق کا چین ،سکون اور راحت ختم ہو جائے گی۔ عقلمند لوگ اس میں  بھی غور کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیّت کے بارے میں  جان سکتے ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ‘‘(النور:۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفاناللّٰہ رات اور دن کو تبدیل فرماتا ہے،بیشک اس میں  آنکھ والوں  کیلئے سمجھنے کا مقام ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍؕ-اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ(۷۱) قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ‘‘(قصص:۷۱،۷۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: بھلا دیکھو کہ اگر اللّٰہ تم پر قیامت تک ہمیشہ رات ہی بنادے تو اللّٰہ کے سوا کون دوسرا معبود ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے گا تو کیا تم سنتے نہیں ؟ تم فرماؤ: بھلا دیکھو کہ اگر اللّٰہ قیامت تک ہمیشہ دن ہی بنادے تو اللّٰہ کے سوا اورکون معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے جس میں  تم آرام کرو تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟

{وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى: اور مُذّکر اور مُؤنّث کو پیدا کرنے والے کی۔} یعنی اس عظیم قدرت والے قادر کی قسم! جو ایک ہی پانی سے مذکر اور مؤنث پیدا کرنے پر قادر ہے۔ (خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۸۳)