banner image

Home ur Surah Al Lail ayat 11 Translation Tafsir

اَلَّيْل

Al Lail

HR Background

وَ مَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰىﭤ(11)اِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدٰى(12)وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَةَ وَ الْاُوْلٰى(13)

ترجمہ: کنزالایمان اور اس کا مال اُسے کام نہ آئے گا جب ہلاکت میں پڑے گا ۔ بیشک ہدایت فرمانا ہمارے ذمہ ہے۔ اور بیشک آخرت اور دنیا دونوں کے ہمیں مالک ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب وہ ہلاکت میں پڑے گاتواس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔ بیشک ہدایت فرمانا ہمارے ہی ذمہ ہے۔ اور بیشک آخرت اور دنیا دونوں کے ہم ہی مالک ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا یُغْنِیْ عَنْهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰى: اور جب ہلاکت میں  پڑے گاتواس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔} یعنی جو شخص اللّٰہ کی راہ میں  مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے وہ جب مر کر قبر میں  جائے گایا جہنم کی گہرائی میں  پہنچے گا تواس کا مال اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں  اسے کچھ کام نہ آئے گا۔ (روح البیان، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۴۴۹، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۳۵۴، ملتقطاً)

{اِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدٰى: بیشک ہدایت فرمانا ہمارے ہی ذمہ ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ حق اور باطل کی راہوں  کو واضح کردینا ، حق پر دلائل قائم کرنا اور احکام بیان فرمانا ہمارے ذمۂ کرم پرہے۔( خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۸۴، مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۳۵۴، ملتقطاً)

            دوسرا معنی یہ ہے کہ جو ہم سے ہدایت طلب کرے اور ہدایت طلب کرنے میں  کوشش کرے تو اسے ہدایت دینا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

’’وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا‘‘(عنکبوت:۶۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں  نے ہماری راہ میں  کوشش کی ضرور ہم انہیں  اپنے راستے دکھادیں  گے۔( تاویلات اہل السنہ، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۴۷۱)

{وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَةَ وَ الْاُوْلٰى: اور بیشک آخرت اور دنیا دونوں  کے ہم ہی مالک ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک تم یہ بات جانتے ہو کہ آخرت اور دنیا دونوں  کے ہم ہی مالک ہیں  اور پتھروں  اور دیگر چیزوں  سے بنے ہوئے جن بتوں  کی تم پوجا کرتے ہو وہ نہ آخرت کے مالک ہیں  نہ دنیا کے مالک ہیں  تو تم آخرت اور دنیا کے مالک کی عبادت چھوڑ کر اُن بتوں  کی عبادت کیسے کرنے لگ گئے جو آخرت اور دنیامیں  سے کسی چیز کے مالک نہیں  حالانکہ تمہیں  یہ بات معلوم بھی ہے۔( تاویلات اہل السنہ، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۴۷۱)

            دوسری تفسیر یہ ہے کہ بیشک آخرت اور دنیا دونوں  کے ہم ہی مالک ہیں  اور ہم ان میں  سے جو چیز جسے چاہیں  عطا کریں  لہٰذا دنیا اور آخرت کی سعادتیں  ہم سے ہی طلب کی جائیں ۔ (تفسیرکبیر، اللّیل، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۱۸۶)

 دنیا اور آخرت دونوں  کی بہتری کے لئے دعا مانگنی چاہئے:

            یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے صرف دنیا کی بہتری کے لئے یا صرف آخرت کی بہتری کے لئے دعا نہیں  مانگنی چاہئے بلکہ دنیا اور آخرت دونوں  کی بہتری کے لئے دعا مانگنی چاہئے،جیساکہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ(۲۰۰) وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱) اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘‘(بقرہ:۲۰۰۔۲۰۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کوئی آدمی یوں  کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں  دنیا میں  دیدے اور آخرت میں  اس کا کچھ حصہ نہیں ۔اور کوئی یوں  کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں  دنیا میں  بھلائی عطا فرما اور ہمیں  آخرت میں  (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں  دوزخ کے عذاب سے بچا۔ان لوگوں  کے لئے ان کے کمائے ہوئے اعمال سے حصہ ہے اور اللّٰہ جلد حساب کرنے والا ہے۔

            اور حضرتِ انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے’’رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ اے ہمارے رب! ہمیں  دنیا میں  بھلائی عطا فرما اور ہمیں  آخرت میں  (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں  دوزخ کے عذاب سے بچا۔( بخاری، کتاب الدّعوات، باب قول النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ربّنا اتنا فی الدّنیاحسنۃ، ۴ / ۲۱۴، الحدیث: ۶۳۸۹)

اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں  سے دین و دنیا کی بھلائیاں  طلب کرنا جائز ہے:

             نیز یہ بھی یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے دین اور دنیا کی بھلائیاں  طلب کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے دین اور دنیا کی بھلائیاں  دے سکتے ہیں  اور یہاں  ہم صرف صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سیرت میں  موجود اس کی بے شمار مثالوں  میں  سے چند مثالیں  اِختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں  تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے دین یا دنیا کی بھلائیاں  طلب کرنا شرک ہر گز نہیں  بلکہ یہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا طریقہ رہا ہے۔چنانچہ

            جب حضرت ربیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے جنت میں  ان کی رفاقت مانگی تو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے انہیں  جنت میں  اپنی رفاقت عطا کردی۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))

             حضرت عکاشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں  عرض کی: یا رسول اللّٰہ! آپ دعا فرما دیں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے بے حساب جنت میں جانے والوں  میں  شامل کر دے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرما دیا کہ اے عکاشہ!تو انہی میں  سے ہے۔( مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ...الخ، ص۱۳۷، الحدیث: ۳۷۴(۲۲۰))

            اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا آخرت کی بھلائی طلب کرنا تو اپنی جگہ،جب کھجور کے ایک تنے سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو میں  تجھے اس باغ میں  لوٹا دوں  جہاں  تُو تھا اور اگر تُو چاہے تو میں  تجھے جنت میں  بو دوں  تاکہ جنت میں  تیرے پھل اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کھائیں  اور اس نے عرض کی کہ :مجھے جنت میں  لگا دیں  تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ’’میں  نے ایساکر دیا (یعنی تجھے جنت میں  لگا دیا)۔( سنن دارمی، المقدمۃ، باب ما اکرم اللّٰہ النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحنین المنبر، ۱ / ۲۹، الحدیث: ۳۲)

            غزوۂ خیبر کے موقع پر جب حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پنڈلی پر چوٹ لگ گئی اور وہ بارگاہِ رسالت میں  حاضر ہو گئے تو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ان کی پنڈلی کو درست کر دیا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ۳ / ۸۳، الحدیث: ۴۲۰۶)

            اور مدینہ منورہ میں  رہنے والوں  نے ایک بارحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے قحط کے بارے میں  عرض کی تو انہوں  نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے روضۂ انور کی چھت میں  روشَندان بنانے کا حکم دیا اور جب روشندان بنایا گیا تو ا س قدر بارش برسی کہ گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے تازے ہو گئے۔( سنن دارمی، المقدمۃ، باب ما اکرم اللّٰہ تعالی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)