Home ≫ ur ≫ Surah Al Maarij ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
سَاَلَ سَآىٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(1)لِّلْكٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَهٗ دَافِعٌ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{سَاَلَ سَآىٕلٌۢ بِعَذَابٍ: ایک مانگنے والے نے وہ عذاب مانگا۔} ان آیات کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب کفارِ مکہ کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف دلایا تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پوچھو کہ اس عذاب کے مُستحق کو ن لوگ ہیں اور یہ کن لوگوں پر آئے گا؟ تو اُنہوں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔اس صورت میں یہاں لفظِ ’’سَاَلَ‘‘ سوال کرنے کے معنی میں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ نضر بن حارث نے عذاب نازل ہونے کی دعا کی تھی جس کا ذکر سورۂ اَنفال میں ہے۔ چنانچہ نضر بن حارث نے کہا کہ اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(انفال:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے اللّٰہ اگر یہ (قرآن) ہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔
اس کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللّٰہ تعالیٰ سے کفار پر عذاب نازل کرنے کی دعا کی تھی اس کے جواب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔اس صورت میں یہاں لفظِ ’’سَاَلَ‘‘ دعاکرنے کے معنی میں ہے۔(تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۶۳۷، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۰۷، ملتقطاً)
پہلے قول کے مطابق اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار جس عذاب کے بارے میں آپ سے سوال کر رہے ہیں وہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے اور اس عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
دوسرے قول کے مطابق اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مانگنے والے نے مذاق کے طور پروہ عذاب مانگا ہے جو کافروں پر واقع ہونے والا ہے، کافر چاہے طلب کریں یا نہ کریں جو عذاب ان کے لئے مُقَدّر ہے وہ ان پر ضرور آنا ہے، اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
تیسرے قول کے مطابق اس آیت اوراس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے کفار پر جو عذاب نازل کرنے کی دعا ہے وہ ان پر واقع ہونے والا ہے اور اس عذاب کو ان سے کوئی ٹال نہیں سکتا ۔