Home ≫ ur ≫ Surah Al Maarij ≫ ayat 28 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ(28)
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ: بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ہے۔} امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اس کا معنی یہ ہے کہ انسان چاہے کتنا ہی نیک ،پارسا اور عبادت و اطاعت کی کثرت کرنے والا ہو لیکن اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہئے۔( مدارک، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۲۸۰)
اور علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ فرض عبادات اسی طرح ادا کرتا رہے جس طرح ادا کرنی چاہئیں اور تمام ممنوعات سے اسی طرح بچتا رہے جیسا بچنے کا حق ہے بلکہ کبھی دونوں طرف سے ا س سے خطا واقع ہو جاتی ہے لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ خوف اور امید کے درمیان رہے۔(خازن، المعارج، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۱۰)
اللّٰہ تعالیٰ سے خوف اور امید کیسی رکھنی چاہئے؟
اللّٰہ تعالیٰ سے کیسا خوف اور کیسی امید رکھنی چاہئے اس کا اندازہ درج ذیل دو واقعات سے لگایاجا سکتا ہے ، چنانچہ
(1)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’اگر آسمان سے کوئی مُنادی یہ آواز دے کہ اے لوگو ایک شخص کے علاوہ تم سب جنت میں داخل ہو جاؤ گے تو میں اس بات سے ڈروں گا کہ کہیں وہ ایک شخص میں ہی نہ ہوں اور اگر مُنادی یہ اعلان کرے کہ اے لوگو!ایک شخص کے علاوہ تم سب جہنم میں داخل ہو جاؤ گے تو میں یہ امید کروں گا کہ وہ ایک شخص میں ہی ہوں ۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، ۲-عمر بن الخطاب،۱ / ۸۹، الحدیث: ۱۴۲)
(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ایک مرتبہ اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے ! اللّٰہ تعالیٰ سے ایسا خوف رکھو کہ تمہیں گمان ہونے لگے کہ اگر تم تمام زمین والوں کی نیکیاں اس کی بارگاہ میں پیش کرو تو وہ انہیں قبول نہ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ سے ایسی امید رکھو کہ تم سمجھو کہ اگر سب زمین والوں کی برائیاں لے کر اس کی بارگاہ میں جاؤگے تو بھی تمہیں بخش دے گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان انّ الافضل ہو غلبۃ الخوف۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰۲)