Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 106 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِؕ-تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىۙ-وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَۙ-اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ(106)
تفسیر: صراط الجنان
{ شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ:تمہاری آپس کی گواہی۔} آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب جن کا نام بُدَیْلْ تھا وہ تجارت کے ارادے سے دو عیسائیوں کے ساتھ ملک ِشام کی طرف روانہ ہوئے۔ اُن عیسائیوں میں سے ایک کانام تمیم بن اَوْسْ داری تھا اور دوسرے کاعدی بن بداء۔شام پہنچتے ہی بُدَیْلْ بیمار ہوگئے اور انہوں نے اپنے تمام سامان کی ایک فہرست لکھ کر سامان میں ڈال دی اور ہمراہیوں کو اس کی اطلاع نہ دی۔ جب مرض کی شدت ہوئی تو بدیل نے تمیم اور عدی دونوں کو وصیت کی کہ ان کا تمام سرمایہ مدینہ شریف پہنچ کر اُن کے گھروالوں کے حوالے کردیا جائے۔ پھربُدَیْلْ کی وفات ہوگئی ان دونوں نے اُن کی موت کے بعد ان کا سامان دیکھا تواس میں ایک چاندی کا جام تھا جس پر سونے کا کام کیا ہوا تھا، اس میں تین سو مثقال چاندی تھی، بُدَیْلْ یہ جام بادشاہ کو نذر کرنے کے قصد سے لائے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کے دونوں ساتھیوں نے اس جام کو غائب کردیا اور اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ لوگ مدینہ طیبہ پہنچے تو انہوں نے بُدَیْلْ کا سامان ان کے گھر والوں کے سپرد کردیا، سامان کھولنے پر فہرست ان کے ہاتھ آگئی جس میں تمام سامان کی تفصیل تھی۔ سامان کو اس فہرست کے مطابق کیا لیکن جام نہ ملا۔ اب وہ تمیم اور عدی کے پاس پہنچے اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا بدیل نے کچھ سامان بیچا بھی تھا ؟انہوں نے کہا: نہیں۔ گھر والوں نے پوچھا کہ کیا کوئی تجارتی معاملہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ پھر گھر والوں نے دریافت کیا کہ کیا بُدَیْلْ بہت عرصہ بیمار رہے اور انہوں نے اپنے علاج میں کچھ خرچ کیا تھا؟ انہوں نے کہا’’ نہیں ‘‘۔ وہ تو شہر پہنچتے ہی بیمار ہوگئے اور جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ان کے سامان میں ایک فہرست ملی ہے اس میں چاندی کا ایک جام سونے سے مُنَقَّش کیا ہوا جس میں تین سو مثقال چاندی ہے یہ بھی لکھا ہے لیکن وہ موجود نہیں ہے۔ تمیم وعدی نے کہا، ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو جو وصیت کی تھی اس کے مطابق سامان ہم نے تمہیں دے دیا، جام کی ہمیں خبر بھی نہیں۔ یہ مقدمہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں پیش ہوا۔ تمیم وعدی وہاں بھی انکار پر جمے رہے اور قسم کھالی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(( خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۵۳۴))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت میں ہے کہ پھر وہ جام مکہ مکرمہ میں پکڑا گیا، جس شخص کے پاس تھا اُس نے کہا کہ میں نے یہ جام تمیم وعدی سے خریدا ہے۔ جام کے مالک کے گھروالوں میں سے دو شخصوں نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ قبول کی جانے کی مستحق ہے، یہ جام ہمارے فوت ہونے والے شخص کا ہے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۴۴، الحدیث: ۳۰۷۱)
آیت میں یہ حکم فرمایا گیا کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آئے اور زندگی کی اُمید نہ رہے، موت کے آثار و علامات ظاہر ہوں تو اپنوں میں سے دو آدمیوں کو وصیت کا گواہ بنالو اور سفر وغیرہ میں ہو اور اپنے آدمی یعنی مسلمان نہ ملیں توغیر مسلموں کوگواہ بنا لو۔
{ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ:تم ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لو۔}اس سے پہلے وصیت پر گواہ بنانے کا طریقہ بتایا گیا اب قرائن اور علامات کی روشنی میں گواہی میں جھوٹ کا عنصر نمایاں ہوتا نظر آئے تو اس صورت میں گواہی لینے کا طریقہ بتایا گیا کہ جب میت کے ورثا کو وصیت کی گواہی میں شک گزرے تو وہ عصر کی نماز کے بعد گواہوں سے اس طرح گواہی لیں : دونوں گواہ یہ اقرار کرتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائیں کہ ہم گواہی کے بدلے کسی سے کوئی مال نہ لیں گے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم گواہی چھپائیں گے یعنی جھوٹی قسم نہ کھائیں گے اور نہ کسی کی خاطر ایسا کریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو اس وقت ہم ضرور گنہگاروں میں سے ہوں گے۔آیت میں نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔ سب لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی دین اور مذہب سے ہو اس وقت کی تعظیم کرتے تھے اور اس وقت میں جھوٹی قسم کھانے سے بچتے تھے۔( تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۲ / ۶۰-۶۱)