Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 66 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْؕ-مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ(66)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ:اور اگر وہ تورات اور انجیل کوقائم کرلیتے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر وہ تورات اور انجیل اور دیگر کتابوں پر عمل کرتے اس طرح کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرتے کیونکہ توریت و انجیل میں اسی کا حکم دیا گیاہے اور دیگر تمام کتابیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں سب میں امامُ الانبیاءصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کا حکم ہے تو اگر وہ اس حکم پر عمل کرلیتے تو انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے قدموں کے نیچے سے رزق ملتا یعنی رزق کی کثرت ہوتی اور ہر طرف سے انہیں رزق پہنچتا۔
دین کی پابندی اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت وُسْعَت رزق کا ذریعہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے رزق میں وُسعت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق ہمدانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے عمر میں اضافہ ہونا اور رزق میں زیادتی ہونا پسند ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔(شعب الایمان ، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۱۹، الحدیث: ۷۹۴۷)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! جو چیز تمہیں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر سکتی ہے ا س کا میں نے تمہیں حکم دے دیا اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب اور جنت سے دور کر سکتی ہے اس سے میں نے تمہیں منع کر دیا۔بے شک رُوْحُ الْاَمین عَلَیْہِ السَّلَام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی جان اس وقت تک مرے گی نہیں جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے رزق طلب کرو۔ رزق کا آہستہ پانا تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ذریعے رزق طلب کرنے لگو کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔(شرح السنہ، کتاب الرقاق، باب التوکل علی اللہ عزوجل، ۷ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۰۰۶)
{مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ: ان میں ایک گروہ اعتدال کی راہ والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں بلکہ بعض اعتدال پسند ہیں اور وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے ،یہ یہودیوں میں سے وہ لوگ ہیں جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ جبکہ بقیہ اکثریت نافرمان ہے جو کفرپر جمے ہوئے ہیں۔